وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ
اور ہم نے آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو کھیل تماشہ کے طور پر نہیں پیدا (١٠) کیا ہے۔
فہم القرآن : (آیت 16 سے 18) ربط کلام : پہلی اقوام کی تباہی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ ہلاک ہونے والے سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو کھیل تماشا کے طور پر بنایا ہے اور دنیا ہمیشہ اس طرح ہی رہے گی۔ حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہوگا ہلاک ہونے والے لوگ فکری یا عملی طور پر سمجھتے تھے کہ اس دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی تفریح یا محض اپنی قدرت کے اظہار کے طور پر پیدا کیا ہے۔ دنیا کی تو کوئی انتہا نہیں اور نہ اس کا انجام۔ اسی اعتقاد کی وجہ سے وہ لوگ دنیا پر اس قدر راضی اور قانع ہوئے کہ انھوں نے اپنے اور زمین و آسمان کے خالق کو نا صرف یکسر طور پر فراموش کردیا بلکہ اس کی بغاوت کرنے میں انتہا کردی۔ جس کے نتیجہ میں انھیں اس دنیا میں ہی عبرت کا نشانہ بننا پڑا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے اعتقاد اور کردار کی نفی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہم نے زمین و آسمان اور ان کے درمیان جو کچھ پیدا کیا ہے اسے کھیل تماشہ کے طور پر پیدا نہیں کیا۔ اگر ہماری منشاء یہ ہوتی تو ہم یہ تماشہ اپنے پاس عرش معلی پر کرتے۔ اس کائنات کو بنانے اور انسان کو پیدا کرنے کا مقصد تو یہ ہے کہ سچ اور جھوٹ، کھرے اور کھوٹے، حق اور باطل میں امتیاز ہوجائے۔ اسی لیے دنیا میں حق و باطل کے معرکے ہوئے اور قیامت تک برپا ہوتے رہیں گے۔ اس معرکہ آرائی میں حق پرست ثابت قدمی دکھائیں تو بالآخر حق کی فتح ہوتی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ حق کو باطل پر غالب کرتا ہے۔ یہاں تک کہ باطل دب جاتا ہے۔ جو لوگ جھوٹ اور باطل کی حمایت کرتے ہیں ان کا انجام خرابی اور بربادی ہی ہوا کرتا ہے۔ حق و باطل کے معرکہ میں، حق کے غالب آنے کی جوگارنٹی دی گئی ہے اس کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ بے شک باطل بظاہر کتنے کروّفر کے ساتھ ترقی کر رہا ہو اور اس کے باوجود حق فکری عملی طور پر اپنا آپ منوا کر رہتا ہے۔ اس سلسلہ میں انبیائے کرام (علیہ السلام) کی مثال ہمارے سامنے ہے جو لوگ انبیاء کے جھوٹا ہونے کا پراپیگنڈہ کرتے تھے۔ نجی مجالس میں وہ بھی ان کی سچائی اور امانت کا اقرار کرتے تھے۔ جنھوں نے حق کو دبانے کی کوشش کی وہ بھی دلائل کی بنیاد پر حق کو جھوٹ ثابت کرنے میں ناکام رہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو یوں بھی بیان فرمایا ہے کہ ” اللہ“ نے اپنے رسول کو دین اور ہدایت کے ساتھ اس لیے بھیجا تاکہ باطل ادیان پر اسے غالب کر دے۔ غلبہ سے حقیقی مراد دلائل کی بنیاد پر غلبہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دلیل کی بناء پر کوئی شخص دین کی کسی بات اور اصول کو ناقابل عمل یا غلط ثابت نہیں کرسکتا یہ اللہ تعالیٰ کا اٹل فیصلہ ہے۔ بے شک کفار اور مشرکین کے لیے یہ بات کتنی ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔ (الصٰفٰت : 8،9) جہاں تک حق کے غلبہ کا تعلق ہے تاریخ اسلام میں بدر و حنین کے معرکے اس بات کا واضح ثبوت ہیں۔ البتہ مسلمانوں کو اسی وقت ہی غلبہ نصیب ہوگا جب وہ اخلاص کے ساتھ اجتماعی طور پر اسلام کے ساتھ عملاً وابستہ ہوں گے۔ جس کے لیے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ مسلمانوں بےدل نہ ہونا اور نہ غم کرنا اگر تم مومن ہو تو تم ہی غالب رہو گے۔ (آل عمران :139) (اَلْاِسْلَامُ یَعْلُوْ وَلَا یُعْلٰیٰ) [ ارواء الغلیل حدیث نمبر :1268] ” اسلام غالب آئے گا اور اس پر کوئی غالب نہیں آئے گا۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اسے کھیل تماشا کے طور پر پیدا نہیں کیا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ حق کو باطل پر غالب کرتا ہے۔ 3۔ باطل کی حمایت کرنے والوں کے لیے بربادی ہے۔ تفسیر بالقرآن: حق غالب رہنے کے لیے آیا ہے : 1۔ حق ہمیشہ غالب رہے گا۔ (الانبیاء :18) 2۔ اللہ تعالیٰ نے حق غالب رہنے کے لیے نازل کیا ہے۔ (الصّٰفّٰت :9) 3۔ اللہ تعالیٰ حق کو باطل پر مسلط کرتا ہے۔ (بنی اسرائیل :81) 4۔ مسلمان غالب ہوں گے بشرطیکہ ایماندار ہوں۔ (آل عمران :139) 5۔ اللہ تعالیٰ حق کو غالب کرنا چاہتا ہے۔ (الانفال :7) 6۔ حق کے بعد گمراہی ہے۔ (یونس :32)