أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللَّهُ مُوتُوا ثُمَّ أَحْيَاهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا (337) جو اپنے گھروں سے ہزاروں کی تعداد میں موت کے خوف سے نکل بھاگے، تو اللہ نے ان سے کہا کہ تم مرجاؤ، پھر اللہ نے انہیں زندہ کیا، بے شک اللہ لوگوں پر فضل و کرم کرنے والا ہے، لیکن اکثرت لوگ شکر گذار نہیں ہوتے
فہم القرآن : (آیت 243 سے 244) ربط کلام : نیاخطاب بدر، احد سے پہلے مسلمانوں کو جہاد کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے سورۃ البقرۃ آیت : 191تا 193میں دفاعی جنگ کا حکم دیا گیا تھا اور یہاں بھی ایسے تناظر میں جہاد کا ذکر ہورہا ہے۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ مسلمانوں پر جنگ مسلط کردی جائے تو انہیں موت کی پروا کیے بغیردشمن کے مقابلے میں ڈٹ جانا چاہیے۔ کیونکہ بات کا آغاز ہی بنی اسرائیل کے اس واقعے سے کیا جارہا ہے جو ہزاروں کی تعداد میں اپنے گھروں سے صرف اس لیے نکلے تھے کہ کہیں یہاں رہتے ہوئے انہیں موت نہ دبوچ لے۔ چند اہل علم کو چھوڑ کر باقی سب نے ایک خاص واقعے اور علاقے کا ذکر کیا ہے کہ وہاں بنی اسرائیل پر طاعون کی وبا پھیلی اور وہ موت کے خوف سے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس حرکت کو ناپسند کرتے ہوئے ان پر موت وارد کی اور وہ سب کے سب موت کی آغوش میں چلے گئے۔ ایک مدت گزرنے کے بعد حضرت سموئیل (علیہ السلام) کی دعا کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ زندگی عطا کی۔ اس واقعہ سے بیک وقت دو نتائج لوگوں کے سامنے رکھے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ اسی طرح مردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہے۔ اور دوسری یہ بات بتلائی کہ جو لوگ موت سے ڈر کراپنے گھروں سے نکلے تھے موت نے انہیں آلیا۔ یاد رکھو ہر کسی کی موت کا وقت اور مقام مقرر ہے وہ اس سے بھاگ نہیں سکتا بلکہ ان لوگوں کی طرح چل کر خود ہی موت کے مقام تک پہنچ جائے گا اس لیے بزدلوں کی طرح دشمن کے آگے بھاگنے اور بھیڑ بکریوں کی طرح اس کے ہاتھوں قتل ہونے کی بجائے دشمن کے سامنے ڈٹ جاؤ۔ موت تو اپنے وقت اور مقام پر ہی آئے گی۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو اپنی قدرت کے معجزات اس لیے دکھاتا ہے تاکہ وہ ہدایت پاکر اس کا شکریہ ادا کریں لیکن اکثر لوگ شکر گزار نہیں ہوتے۔ مرنے کے بعد اٹھنا قرآن مجید کا بنیادی نظریہ ہے جس کے ثبوت میں یہ دوسراواقعہ بیان ہورہا ہے۔ اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شریعت محمدی کی طرح بنی اسرائیل کے لیے بھی یہی قانون تھا کہ اگر کسی علاقے میں طاعون یا کوئی وبا پھیل جائے تو اسے چھوڑنا نہیں چاہیے۔ حضرت اسامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : (اَلطَّاعُوْنُ رِجْسٌ أُرْسِلَ عَلٰی طَآئِفَۃٍ مِّنْ بَنِیْ إِسْرَآئِیْلَ أَوْ عَلٰی مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ فَإِذَا سَمِعْتُمْ بِہٖ بِأَرْضٍ فَلَا تَقْدَمُوْا عَلَیْہِ وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِھَا فَلَا تَخْرُجُوْا فِرَارًا مِّنْہُ) [ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء، باب حدیث الغار] ” طاعون عذاب ہے جو بنی اسرائیل یا تم سے پہلے کسی قوم پر بھیجا گیا۔ جب تمہیں معلوم ہو کہ فلاں علاقے میں طاعون کی بیماری پھیل گئی ہے تو وہاں نہ جاؤ۔ اگر تمہارے علاقے میں طاعون کی وباپھوٹ پڑے تو وہاں سے فرار اختیار نہ کرو۔“ طاعون کی بیماری کے وقت اپنا گھر بار چھوڑ کر نکلنے کا اس لیے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ موت کا وقت مقرر ہے جو کسی بنا پر بھی آگے پیچھے نہیں ہوسکتا قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے جرائم کی وجہ سے پکڑنا چاہے تو زمین میں ایک جاندار بھی باقی نہ رہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کی موت تک مہلت دیتا ہے جب موت کا وقت آجاتا ہے تو لوگوں کی اجل ایک لمحہ بھی آگے پیچھے نہیں ہوا کرتی۔ طاعون سے شاید اس لیے بھی فرار کی اجازت نہیں دی کہ اس طرح مخصوص علاقہ کے جراثیم دور تک پھیلنے کا خدشہ ہوسکتا ہے۔ مسائل : 1۔ موت سے بھاگنے والا موت کی ہی طرف جاتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہی مارنے اور زندہ کرنے والا ہے۔ 3۔ اکثر لوگ اللہ تعالیٰ کے شکرگزار نہیں ہوتے۔ 4۔ جہاد صرف اللہ کے لیے ہونا چاہیے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھنے والا اور ہر بات کو سننے والا ہے۔ دنیا میں مر کر دوبارہ زندہ ہونے والوں کے واقعات اور دلائل البقرہ آیت 259کے تحت دیکھیں۔ تفسیر بالقرآن: لوگوں کی اکثریت کا حال: 1۔ اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (یوسف: 21) 2۔ لوگوں کی اکثریت شکر نہیں کرتی: (یوسف: 38) 3۔ آپ کے چاہنے کے باوجود لوگوں کی اکثریت ایمان نہیں لائے گی۔ (یوسف: 103) 4۔ یہ آپ کے رب کی طرف سے برحق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔ (ھود: 17) 5۔ اہل کتاب میں سے کچھ لوگ مؤمن ہیں اور انکی اکثریت نافرمان ہے۔ (آل عمران: 110)