سورة الأنبياء - آیت 5

بَلْ قَالُوا أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ بَلِ افْتَرَاهُ بَلْ هُوَ شَاعِرٌ فَلْيَأْتِنَا بِآيَةٍ كَمَا أُرْسِلَ الْأَوَّلُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

بلکہ ان ظالموں نے کہا کہ (یہ قراان) پراگندہ خوابوں کی باتیں (٥) ہیں، بلکہ اس نے گھڑ لیا ہے، بلکہ وہ ایک شاعر ہے، پس وہ ہمارے لیے ایک نشانی لے کر آئے، جس طرح گزشتہ انبیا ( نشانیاں دے کر) بھیجے گئے تھے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 5 سے 6) ربط کلام : نبی اکرم (ﷺ) کی ذات پر کفار کا دوسرا اور تیسرا الزام۔ سرورِ دو عالم (ﷺ) کی مخالفت میں کفار اس حد تک بدحواس ہوچکے تھے کہ وہ قرآن مجید کی تاثیر اور اس کی فصاحت و بلاغت ماننے کے باوجود لوگوں کے سامنے یہ پراپیگنڈہ کرتے کہ یہ تو خواب میں دیکھے جانے والے پراگندہ خیالات ہیں۔ جنھیں اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے جو سراسر جھوٹ ہے۔ کبھی کہتے یہ شخص توشاعر ہے۔ اگر یہ واقعی ہی رسول ہوتا تو جس طرح پہلے انبیاء (علیہ السلام) معجزات کے ساتھ بھیجے گئے یہ بھی کوئی معجزہ پیش کرتا۔ یہاں ان الزامات کا فقط یہ جواب دیا گیا ہے کہ جنھیں ہم نے ہلاک کیا تھا۔ وہ بھی معجزات دیکھنے کے باوجود اپنے انبیاء پر ایمان نہیں لائے تھے اگر ان کے پاس ان کا منہ مانگا معجزہ آجائے تو کیا پھر یہ ایمان لے آئیں گے ؟ ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے پہلے چاند کا دو ٹکڑے ہونا، معراج کے موقعہ پر مسجد اقصیٰ کا نبی (ﷺ) کے سامنے لایا جانا اور اس کو دیکھ دیکھ کر کفار کو ٹھیک ٹھیک مسجد اقصیٰ کی نشانیاں بتلانا، پتھروں کا آپ (ﷺ) کی نبوت کی شہادت دینا۔ اس طرح کے کئی معجزات کفار کے مطالبات پر ظاہر ہوچکے تھے۔ مگر اس کے باوجود اہل مکہ کی غالب اکثریت فتح مکہ سے پہلے ایمان نہیں لائی تھی۔ جس بناء پر ارشاد ہوا کہ اگر ان کا منہ مانگا معجزہ بھی انھیں دکھلا دیا جائے تو پھر بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ جہاں تک آپ پر شاعر ہونے کا الزام ہے۔ اس کا جواب یوں دیا گیا کہ ” شاعر کے دماغ میں شیطان ادھر ادھر کی باتیں ڈالتا ہے اور وہ اکثر جھوٹ ہوتی ہیں اور شاعروں کی پیروی کرنے والے اکثر لوگ گمراہ ہوتے ہیں۔“ ( نبی (ﷺ) پر شاعر ہونے کا الزام لگانے والو ! غور کرو) کہ شاعر تو ہر وادی میں سرگرداں پھرتے ہیں اور وہ باتیں کہتے ہیں جن پر ان کا عمل نہیں ہوتا۔ (الشعراء : 223تا226) قرآن مجید کے دوسرے مقام پر اس الزام کا یہ بھی جواب دیا گیا ہے۔ ” ہم نے اپنے پیغمبر کو شاعری نہیں سکھلائی اور نہ ہی اس کی شایان شان ہے۔ وہ شعر کہیں جس بات کو یہشاعری کہتے ہیں یہ تونصیحت اور واقع ہی قرآن مجید ہے۔ (یٰس :96) ستائیسویں پارہ میں اس الزام کا اس طرح جواب دیا ہے : کفار کہتے ہیں کہ یہ تو شاعر ہے۔ اس لیے ہم اس کے متعلق حادثات زمانہ کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان سے فرما دئیں کہ انتظار کرو میں بھی تمہارے بارے میں منتظر ہوں۔ (الطور : 29۔30) اچھے شعر قابل تعریف ہیں : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () أَصْدَقُ کَلِمَۃٍ قَالَھَا الشَّاعِرُ کَلِمَۃُ لَبِیْدٍ أَلَاکُلُّ شَیْءٍ مَاخَلا اللّٰہَ بَاطِلُ) [ رواہ البخاری : باب مَا یَجُوزُ مِنَ الشِّعْرِ وَالرَّجَزِ وَالْحُدَاءِ وَمَا یُکْرَہُ مِنْہُ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا‘ سب سے زیادہ درست بات، جو کسی شاعر نے کہی وہ لبید کی بات ہے کہ ” سنو! اللہ کے علا وہ تمام چیزیں فنا ہونے والی ہیں۔“ (وَعَنْ أُبَیِّ ابْنِ کَعْبٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () اِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حِکْمَۃً۔) [ رواہ البخاری : باب مَا یَجُوزُ مِنَ الشِّعْرِ وَالرَّجَزِ وَالْحُدَاءِ وَمَا یُکْرَہُ مِنْہُ ] ” حضرت ابی بن کعب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (ﷺ) نے فرمایا‘ بلا شبہ بعض اشعار حکمت سے لبریز ہوتے ہیں۔“ مسائل: 1۔ کفار قرآن مجید کو خواب کی باتیں قرار دیتے تھے۔ 2۔ کفار نبی اکرم (ﷺ) کو شاعر کہتے تھے۔ 3۔ کفار آپ (ﷺ) سے نئے سے نیا معجزہ مانگتے تھے۔ تفسیر بالقرآن: شعر اور شاعرکی حقیقت : 1۔ ہم نے آپ کو شعر نہیں سکھلائے اور نہ ہی یہ آپ کے لیے لائق ہے۔ (یٰس :69) 2۔ شاعروں کی پیروی گمراہ لوگ ہی کرتے ہیں وہ ہر وادی میں گھومتے ہیں اور وہ کچھ کہتے ہیں جو وہ کرتے نہیں (الشعراء : 224تا226) 3۔ قرآن مجید کسی شاعر کا کلام نہیں مگر تھوڑے ہی لوگ ایمان لاتے ہیں۔ (الحاقۃ:41) 4۔ آپ اپنے رب کے فضل وکرم سے شاعر اور مجنون نہیں ہیں۔ ( القلم :2) شعر اور شعراء کے بارے میں سورۃ الشعراء کی آیت 225کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔