ثُمَّ اجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدَىٰ
پھر ان کے رب نے انہیں چن لیا، تو ان کی توبہ قبول کرلی، اور انہیں راہ راست پر ڈال دیا۔
فہم القرآن : (آیت 122 سے 124) ربط کلام : حضرت آدم کے بارے میں گفتگو جاری ہے چنانچہ حضرت حوا علیہا السلام حضرت آدم (علیہ السلام) کی توبہ قبول ہوجانے کے باوجود انھیں زمین پر اتر جانے کا حکم۔ پہلی آیات میں بیان ہوا ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو شیطان نے ورغلایا تھا مگر آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب کے حضور توبہ کی اللہ تعالیٰ نے اس کی توبہ قبول کی اور اپنی ہدایت سے نوازا۔ حضرت حوا علیہا السلام، حضرت آدم (علیہ السلام) کے ماتحت تھیں۔ حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا علیہا السلام سے خطا کروانے والا ابلیس تھا۔ اس لیے تینوں کو حکم ہوا کہ تم زمین پر اتر جاؤ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو۔ تاہم آدم (علیہ السلام) کو فرمایا کہ جب تمھارے پاس میری طرف سے ہدایت آئے جس نے میری ہدایت کی پیروی کی نہ وہ گمراہ ہوگا اور نہ ہی قیامت کے دن اسے کوئی تکلیف پہنچے گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہاری توبہ قبول ہوئی لیکن آسمان سے اترنا تمہارا یقینی ہے لہٰذا جنت سے نکل جاؤ اور تم زمین پر جا کر شیطان کی سازشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقہ سے نبھانے کی کوشش کرو۔ یاد رکھنا تمہارا زمین پر جانے کا یہ معنٰی نہیں کہ تم شتر بے مہار کی طرح جدھر چاہو نکل کھڑے ہو بلکہ تمہیں ایک دستور حیات اور مسلسل ہدایات دی جائیں گی۔ جس نے اس نصیحت اور دستور حیات سے منہ پھیرلیا اس کے لیے اس کی زندگی تنگ کر دوں گا اور اسے قیامت کے دن اندھا کرکے اٹھائیں گے۔ اعراض سے مراد کفر و شرک اور کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرنا ہے۔ ایسے لوگ دنیا میں کشادہ دست ہونے کے باوجود پریشان رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے رزق سے برکت اٹھا لیتا ہے۔ سب کچھ ہونے کے باوجود یہ دنیا کے حصول کے لیے ہلکان رہتے ہیں۔ انھیں دل کی تونگری حاصل نہیں ہوتی۔ جس کی وجہ سے بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی ان کے مال کی ہوس دن بدن بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ قبر کنارے پہنچ جاتے ہیں۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ لَیْسَ الْغِنَی عَنْ کَثْرَۃِ الْعَرَضِ، وَلَکِنَّ الْغِنَی غِنَی النَّفْسِ) [ رواہ البخاری : باب الْغِنَی غِنَی النَّفْسِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے وہ نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ تونگری دولت کی بہتات سے نہیں بلکہ دل کے غنٰی سے حاصل ہوتی ہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کی نصیحت سے منہ پھیرنے والے ہمیشہ تنگ رہتے ہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ دنیا پرست لوگوں کو قیامت کے دن اندھا کرکے اٹھائے گا۔ تفسیر بالقرآن: ذکر کا مفہوم اور اس کے فائدے : 1۔ قرآن ذکر ہے۔ ( الحجر :9) 2۔ نماز ذکر ہے۔ ( العنکبوت :45) 3۔ اللہ کے ذکر سے دل مطمئن ہوتے ہیں۔ (الرعد :28) 4۔ نصیحت ذکر ہے۔ ( طٰہٰ:144) 5۔ اللہ کے ذکر سے غافل لوگوں پر شیطان کا تسلط ہوتا ہے۔ (الزخرف :36) 6۔ صبح اور شام کثرت سے اللہ کا ذکر کیا کرو۔ (آل عمران :41) 7۔ اے ایمان والو! کثرت سے اللہ کو یاد کرو۔ (الاحزاب :41) 8۔ اللہ کو کثرت کے ساتھ یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ (الجمعۃ:10) 9۔ اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والوں کے لیے مغفرت اور بڑا اجر ہے۔ (الاحزاب :35)