وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ ۖ وَقَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمًا
اور (اس دن) تمام چہرے اس ذات کی بارگاہ میں جھکے (٤٥) ہوں گے جو ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا اور جس کے ذریعہ آسمان و زمین کی ہر چیز قائم ہے اور جو ظلم و شرک کر کے آئے گا وہ خائب و خاسر ہوگا
فہم القرآن : (آیت 111 سے 112) ربط کلام : محشر کے دن لوگوں کی جسمانی کیفیت۔ حشر کے دن ناصرف لوگوں کی آواز پست ہوگی بلکہ ہر کوئی ” رَبِّ نَفْسِیْ، رَبِّ نَفْسِیْ“ کہتا ہوا رب ذوالجلال کے سامنے جھکا جا رہا ہوگا۔ لیکن اس وقت جھکنے اور معافی مانگنے کا ظالم کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی دو صفات کا ذکر فرما کر یہ ثابت کیا ہے کہ لوگو! تم قیامت کا انکار کرو یا اقرار۔ بہر صورت تمھیں اس رب کے حضور پیش ہونا ہے جو ہمیشہ سے زندہ اور قائم رہنے والا ہے۔ اس کی ذات، صفات اور اقتدار میں کبھی کمزوری واقع ہوئی اور نہ ہوگی۔ بالآخر تمھیں اسی ذات کے سامنے جھکنا اور پیش ہونا ہے۔ لیکن یاد رکھو جو شخص دنیا میں اس کی ذات اور حکم کے سامنے نہ جھکا اسے قیامت کے دن جھکنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ہر ظالم اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہوگا۔ ہاں جس شخص نے حقیقی ایمان کے ساتھ صالح اعمال اختیار کیے اسے کسی ظلم یا حق تلفی کا خطرہ نہیں ہوگا۔ گویا کہ ظالم کو اس کے ظلم کی سزا اور نیک کو اس کی نیکی کی پوری پوری جزا دی جائے گی۔ یہاں ظلم سے پہلی مراد کفر اور شرک ہے جو کسی صورت بھی معاف نہیں ہوگا۔ اسی بات کو قرآن مجید نے اس طرح بھی بیان فرمایا کہ جس نے ذرہ برابر نیکی کی وہ اسے پائے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی وہ بھی اسے اپنے سامنے پائے گا۔ (الزلزال : 7۔8) مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ زندہ اور قائم و دائم ہے اور وہ ہمیشہ زندہ اور قائم دائم رہے گا۔ 2۔ جس نے ظلم کیا وہ نامراد ہوگا۔ 3۔ جس نے حقیقی ایمان کے ساتھ نیک اعمال کیے اسے کسی زیادتی یاحق تلفی کا اندیشہ نہیں ہوگا۔