سورة طه - آیت 102

يَوْمَ يُنفَخُ فِي الصُّورِ ۚ وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِينَ يَوْمَئِذٍ زُرْقًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

جس دن صور (٣٩) پھونک دیا جائے گا اور ہم مجرموں کو اس دن میدان محشر میں اکٹھا کریں گے درآنحلیکہ ان کی آنکھیں (مارے خوف کے) نیلی پتھرائی ہوئی ہوں گئی.

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 102 سے 104) ربط کلام : جس دن مجرموں نے اپنے اعمال کا بوجھ اٹھانا ہے اس دن کے برپا ہونے کی کیفیت اور مجرموں کا حال۔ مجرموں کے لیے قیامت کا دن اس قدر سخت اور بھاری ہوگا کہ اس دن ان کی آنکھوں کی سفیدی نیلی ہوجائے گی۔ اور ان کے ڈیلے پتھرا جائیں گے وہ سرگوشی اور گنگناہٹ کے انداز میں ایک دوسرے سے کہیں گے کہ دنیا میں ہم دس دن سے زیادہ نہیں رہے تھے۔ جو ان میں سب سے زیادہ اعتماد کے ساتھ بات کرے گا وہ دوسروں کو کہے گا کہ ہم صرف ایک ہی دن دنیا میں ٹھہرے تھے۔ جو کچھ وہ کہیں گے اللہ تعالیٰ ان کی ہر بات کو اچھی طرح جانتا ہے۔ قیامت کا آغاز صور میں پھونک مارنے سے ہوگا جونہی اسرافیل (علیہ السلام) فرشتہ صور میں پھونک مارے گا تو لوگ جہاں جہاں دفن اور دبے ہوئے ہوں گے اپنی اپنی جگہ سے اٹھ کر محشر کے میدان کی طرف اس طرح دوڑیں گے جس طرح شکاری اپنے شکار کی طرف دوڑتا ہے۔ (یٰس :51) جب لوگ محشر کے میدان میں اکٹھے کیے جائیں گے تو رب ذوالجلال کی جلالت اور تمکنت کے خوف کی وجہ سے مجرموں کی آنکھیں نیلی ہونے کے ساتھ پتھرا جائیں گی۔ مجرم اپنے اپنے گناہوں کے مطابق اپنے پسینے میں ڈبکیاں لے رہے ہوں گے۔ اس حالت میں نہ صرف وہ دنیا کی عیش و عشرت کو بھول جائیں گے بلکہ انھیں یہ بھی یاد نہیں ہوگا کہ وہ دنیا میں کتنی مدت ٹھہرے ہیں۔ خوف کی حالت میں سرگوشی اور کنگناہٹ کے انداز میں ایک دوسرے سے کہیں گے ہم دنیا میں دس دن ٹھہرے ہونگے لیکن ان میں جس کی بات قابل اعتماد سمجھی جائے گی وہ کہے گا کہ دس دن کی بجائے ہم صرف ایک دن ٹھہرے ہیں۔ (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ () یَقُوْلُ یُحْشَرُالنَّا سُ یَوْمَ الْقِیاَمَۃِ حُفَاۃً عُرَاۃً غُرْلًا قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَلرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ جَمِیْعًا یَنْظُرُ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ فَقَالَ یَا عَائِشَۃُ اَلْاَمْرُ اَشَدُّ مِنْ اَنْ یَّنْظُرَ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب کَیْفَ الْحَشْر] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول معظم (ﷺ) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ لوگ قیامت کے دن ننگے پاؤں‘ ننگے بدن اور بلا ختنہ اٹھائے جائیں گے۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول کیا مرد اور عورتیں اکٹھے ہوں گے وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھیں گے نہیں؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا : اس دن معاملہ اس کے برعکس ہوگا کہ کوئی ایک دوسرے کی طرف دیکھ نہیں سکے گا۔“ مسائل: 1۔ محشر کے دن کی سختی کی وجہ سے مجرموں کی آنکھیں نیلی اور پتھرا جائیں گی۔ 2۔ مجرم خوف کی حالت میں نہایت ہی آہستہ آواز میں کہیں گے ہم دنیا میں دس دن یا صرف ایک ہی دن ٹھہرے تھے۔ تفسیر بالقرآن: محشر کے دن کی ہولناکیاں : 1۔ جب واقعہ ہوگی واقعہ ہونے والی۔ (الواقعۃ:1) 2۔ جب زمین کو ہلا دیا جائے گا پوری طرح ہلا دینا۔ (الزلزال :1) 3۔ قیامت زمین و آسمانوں پر بھاری ہوگی۔ (الاعراف :187) 4۔ لوگو! اپنے رب سے ڈر جاؤ قیامت کا زلزلہ بہت سخت ہے۔ (الحج :1) 5۔ قیامت کے دن لوگ اڑتے ہوئے پروانوں کی طرح ہوں گے۔ (القارعۃ :4) 6۔ قیامت کے دن پہاڑ اون کی طرح ہوں گے۔ (القارعۃ:5) 7۔ قیامت کا دن انتہائی دردناک ہوگا۔ (ھود :26) 8۔ زمین کو ہلا کر تہہ و بالا کردیا جائے گا۔ (واقعۃ : 3، 4) 9۔ پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر غبار کی طرح ہوجائیں گے۔ (الواقعۃ: 5، 6)