إِنَّمَا إِلَٰهُكُمُ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ وَسِعَ كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا
بیشک تم سب کا معبود (٣٧) وہ اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، وہ اپنے علم کے ذریعہ ہر چیز کو محیط ہے۔
فہم القرآن : (آیت 98 سے 101) ربط کلام : معبود باطل کی حیثیت بتلانے اور اس کا انجام دکھلانے کے بعد سچے معبود کا تعارف کر وایا گیا ہے۔ یہ کتنی عظیم حقیقت ہے کہ قرآن مجید میں کوئی ایک واقعہ بھی داستاں گوئی کے طور پر بیان نہیں کیا گیا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے واقعہ کے سوا باقی تمام واقعات کو اجزاء کی شکل میں مختلف مقامات پر بیان کرتے ہوئے موقع اور مضمون کی مناسبت سے ایسی نصیحت کی جاتی ہے جو انسان کے دل پر اثر کیے بغیر نہیں رہ سکتی۔ اسی اصول کے پیش نظر یہاں پہلے معبود باطل یعنی بچھڑے کے بارے میں بتلایا کہ ناعاقبت اندیش لوگوں نے یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہ کی کہ بچھڑے کا مجسمہ نہ ان کی بات کا جواب دیتا ہے اور نہ ہی نفع و نقصان کا مالک ہے۔ جس کے ثبوت کے لیے یہ بھی وضاحت کردی گئی کہ اسے موسیٰ (علیہ السلام) نے سامری کے سامنے ہی ریزہ ریزہ کرتے ہوئے سمندر میں پھینک دیا۔ جسے لوگ حاجت روا، مشکل کشا سمجھ کر پکاررہے تھے وہ اپنا وجود بھی نہ بچا سکا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کا تعارف کرواتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ لوگو! اللہ ہی تمھارا حقیقی معبود ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اس کے بعد ارشاد ہوا کہ اے پیغمبر! یہ گزرے ہوئے واقعات ہم آپ کے سامنے بیان کرتے ہیں کیونکہ اس میں نصیحت ہے اور اس نصیحت کو قرآن مجید کی صورت میں ہم نے آپ پر نازل کیا ہے۔ جس نے اس نصیحت سے اعراض کیا وہ قیامت کے دن اس گناہ کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہوگا۔ یہ لوگ ہمیشہ اپنے گناہوں کابوجھ اٹھائے ہوئے بدترین سزاؤں میں مبتلاہوں گے۔ یاد رہے کہ یہاں ذکر سے پہلی مراد عقیدۂ توحید ہے جو قرآن مجید کی اولین بنیادی نصیحت ہے۔ باقی نصیحتیں اور اعمال اسی کی تفصیل اور تقاضے ہیں (وَعَنْ اَبِیْ ذَرٍّ (رض) قَالَ اَتَیْتُ النَّبِیَّ (ﷺ) وَعَلَیْہِ ثَوْبٌ اَبْیَضُ وَھُوَ نَآئِمٌ ثُمَّ اَتَیْتُہُ وَقَدِ اسْتَیْقَظَ فَقَالَ مَا مِنْ عَبْدٍ قَالَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ثُمَّ مَاتَ عَلٰی ذٰلِکَ اِلَّا دَخَلَ الْجَنَّۃَ قُلْتُ وَاِنْ زَنٰی وَاِنْ سَرَقَ قَالَ وَاِنْ زَنٰی وَاِنْ سَرَقَ قُلْتُ وَاِنْ زَنٰی وَاِنْ سَرَقَ قَالَ وَاِنْ زَنٰی وَاِنْ سَرَقَ قُلْتُ وَاِنْ زَنٰی وَاِنْ سَرَقَ قَالَ وَاِنْ زَنٰی وَاِنْ سَرَقَ عَلٰی رَغْمِ اَنْفِ اَبِی ذَرٍّ وَّکَانَ اَبُوْ ذَرٍّ اِذَا حَدَّثَ بِھٰذَا قَالَ وَاِنْ رَغِمَ اَنْفُ اَبِیْ ذَرٍّ) [ رواہ البخاری : باب الثیاب البیض] ” حضرت ابوذر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نبی اکرم (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ اس وقت سفید چادر لیے ہوئے آرام فرما رہے تھے۔ میں دوبارہ حاضر ہوا تو آپ جاگ چکے تھے۔ ارشاد ہوا جس شخص نے لا الہ الا اللہ پڑھا اور پھر اسی عقیدے پر فوت ہوا وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا۔ میں نے عرض کیا چاہے وہ چور ہو یا زانی؟ فرمایا ہاں چور ہو یا بدکار۔ میں نے دوبارہ تعجب سے پوچھا اگر وہ چور اور بدکار ہو تب بھی؟ فرمایا اگرچہ وہ زانی اور چور ہو تب بھی میرے تیسری دفعہ پوچھنے پر آپ (ﷺ) نے انہیں الفاظ کا اعادہ کرتے ہوئے یہ محاورہ استعمال فرمایا۔ اگرچہ ابوذر کی ناک خاک آلود ہو۔ توحید والا تو ضرور جنت میں داخل ہوگا۔ حضرت ابوذر (رض) جب بھی آپ کا فرمان نقل کرتے تو اعزاز کے طور پر یہ الفاظ دہرایا کرتے تھے کہ اگرچہ ابوذر کی ناک خاک آلود ہوجائے۔“ مسائل: 1۔ اللہ کے سوا کوئی معبودِ حق نہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو ذکر اور نصیحت کے طور پر نازل فرمایا ہے۔ 4۔ جس نے اس ذکر سے انحراف کیا وہ اس جرم کی قیامت کے دن سزا پائے گا۔