أَفَلَا يَرَوْنَ أَلَّا يَرْجِعُ إِلَيْهِمْ قَوْلًا وَلَا يَمْلِكُ لَهُمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا
کیا وہ دیکھتے نہیں ہیں کہ وہ بچھڑا ان کی کسی بات کا جواب نہیں دیتا ہے، اور نہ انہیں نفع یا نقصان پہنچانے کی قدرت رکھتا ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : بنی اسرائیل کے بے ہودہ بہانے کا جواب۔ بنی اسرائیل کی خدا فراموشی اور جہالت کا اندازہ لگائیں کہ انہیں کے زیورات سے ایک شخص بچھڑا بنا کر کہتا ہے کہ یہ ہے وہ الٰہ جس کی تلاش کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور پر گئے ہیں۔ جاہل قوم نے یہ سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی کہ یہ تو سامری کے کرتب کا کرشمہ ہے اور اس نے ہمارے زیورات سے اسے بنایا ہے۔ انھوں نے آنکھیں بند کرکے اس کی پوجا شروع کردی۔ درحقیقت گمراہ اقوام کا ابتدا ہی سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ سوچا ہی نہیں کرتے کہ ہمارے ہاتھوں سے تراشے ہوئے بت اور ہم نے جن بزرگوں کو غسل دے کر اپنے ہاتھوں قبر میں اتارا ہے۔ دفن ہونے کے بعد اب کس طرح مدد کرسکتے ہیں۔ اگر وہ اس قابل ہوتے تو خود غسل کرکے اپنے قدموں پر چل کر قبر میں جاکر لیٹ جاتے۔ اسی طرح بت پرستوں کا معاملہ ہے جن بتوں اور مجسموں کو اپنے ہاتھوں سے تراشتے ہیں۔ ان کے بارے میں عقیدہ رکھتے ہیں کہ مدفون بزرگوں کی روح ان میں حلول کرگئی ہے جس وجہ سے ان کے سامنے ہاتھ جوڑتے، اعتکاف اور سجدہ کرتے اور نذرانے پیش کرتے ہیں۔ کہاں سے ثابت ہوا کہ ان میں بزرگوں کی روح حلول کرگئی ہے۔ اور پھر روحوں کے بارے میں کیا ثبوت ہے کہ یہ سنتے اور مدد کرتے ہیں؟ سب کچھ جاننے اور دیکھنے کے باوجود لوگ انھیں داتا، دستگیر، حاجت روا، مشکل کشا کہتے اور مانتے ہیں۔ افسوس کس قدر جہالت کی انتہا ہے۔ اسی جہالت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ بچھڑے کی پوجا کرنے والوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ یہ نہ ان کی بات کا جواب دیتا ہے نہ انھیں نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ ہی فائدہ دے سکتا ہے۔ پھر یہ کیسا معبود ہے ؟ افسوس جب انسان شرک میں مبتلا ہوجائے تو اس کی عقل کام نہیں کرتی اسی حقیقت کی قرآن مجید نے نشاندہی فرمائی ہے۔ ” کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے وہ چلتے ہیں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ پکڑتے ہیں یا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے ہیں کیا ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے ہیں ؟ اے پیغمبر (ﷺ) فرما دیجیے تم اپنے شرکاء کو بلاؤاور میرے بارے میں تدبیر کرو اور مجھے مہلت نہ دو“ [ الاعراف :195] مسائل: 1۔ بت اور مدفون بزرگ کسی بات کا جواب نہیں دے سکتے ہیں اور نہ قیامت تک جواب دے سکیں گے۔ 2۔ بت اور مدفون بزرگ کسی کے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں۔