قَالُوا مَا أَخْلَفْنَا مَوْعِدَكَ بِمَلْكِنَا وَلَٰكِنَّا حُمِّلْنَا أَوْزَارًا مِّن زِينَةِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنَاهَا فَكَذَٰلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُّ
انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنی مرضی سے آپ کے وعدے کی خلاف ورزی (٣٢) نہیں کی، بلکہ قبطیوں کے زیورات کا ہم پر بوجھ لد گیا تھا تو ہم نے اسے (آگ میں) ڈال دیا، اسی طرح (سامری کے پاس جو زیورات تھے) اس نے ڈال دیا۔
فہم القرآن : (آیت 87 سے 88) ربط کلام : قوم کا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بے ہودہ جواب۔ چاہیے تو یہ تھا بنی اسرائیل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے معذرت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرتے لیکن انھوں نے حسب عادت بہانہ سازی سے کام لیتے ہوئے یہ عذر لنگ پیش کیا کہ اے موسیٰ دراصل ہم اپنی مرضی سے اس سنگین جرم کے مرتکب نہیں ہوئے۔ اے موسیٰ ہوا یوں کہ ہمارے پاس لوگوں کے زیورات تھے وہ ہمارے لیے بوجھ بن چکے تھے۔ ہم نے سوچا ان سے جان چھڑائی جائے ہم نے انھیں پھینک دیا۔ ہمارے ساتھ سامری نے بھی اپنا زیور پھینک دیا۔ پھر سامری نے انھیں آگ میں ڈال کر ایک ایسا بچھڑا بنایا۔ جس کے منہ سے عجب آوازیں آنے لگیں۔ سامری نے ہمیں کہا یہی تو تمہارا اور موسیٰ کا رب ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) اسی کی تلاش میں کوہ طور کی جانب گئے ہیں۔ ہمارا رب تو خود بخود ہمارے پاس چل کر پہنچاہے۔ ہم اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے لہٰذا ہم نے مجبور ہو کر اس کی پرستش شروع کی ہے اس میں ہمارا کیا قصور ہے ؟ ” حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تو کوہ طور پر تشریف لے گئے آپ کی غیر حاضری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے بنی اسرائیل کی غالب اکثریت نے اللہ تعالیٰ کی توحید سے ہی منہ موڑ لیا، جس خالق نے فرعون کی غلامی سے ان کو آزادی دی۔ جس کی قدرت سے سمندر کی موجوں نے سمٹ کر ان کے لیے راستے بنا دئیے تھے، جس مالک نے ان کے سامنے ان کے دشمن کو ذلیل کر کے مارا اس وحدہ لا شریک کو بھول گئے۔ اس محسن حقیقی سے بندگی کا رشتہ توڑ کر ایک بچھڑے کی پرستش شروع کردی۔ ان کی عقلیں اتنی اندھی تھیں کہ الٰہ بنانے کے لیے ان کی نظر انتخاب جس چیز پر پڑی وہ دھات کی بنی ہوئی بچھڑے کی مورتی تھی جو نہ بول سکتی تھی اور نہ کچھ سن سکتی تھی یہ اس کے سامنے شورو غل مچاتے ہیں اس کے منہ سے ایک بے معنی آواز کے بغیر کچھ سنائی نہ دیتا۔ جس قوم نے ہر قدم پر آیات الٰہی کا مشاہدہ کیا تھا اس نیے یہ کیسے باور کرلیا کہ یہ ہمارا الٰہ ہے جس کا ڈھانچہ ان کے سامنے سامری نے تیار کیا تھا؟۔ اس کی توجیہہ بجز اس کے اور کیا کی جا سکتی ہے کہ غلامانہ زندگی کا طویل عرصہ جو انہوں نے سر زمین مصر میں بسر کیا تھا۔ وہاں وہ اپنے قبطی آقاؤں کو گائے کی پوجا کرتے ہوئے اور ان کی مورتیوں کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا کرتے تھے۔ اس چیز نے گائے کے تقدس کا ایسا نقشہ ان کو لوح ذہن پر کندہ کردیا تھا کہ جہاں گائے یا بچھڑے کی کوئی مورتی نظر آئی وہاں وہ بے ساختہ اس کے سامنے بچھتے چلے گئے۔ اور عقل وفہم کے تمام تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کو الٰہ تسلیم کرلیا۔ موجودہ تورات میں بچھڑا بنانے کا الزام حضرت ہارون (علیہ السلام) پر لگایا گیا ہے لیکن قرآن جو تمام سابقہ انبیاء کی صداقت اور ان کی عظمت وپاکیزگی کا نقیب ہے۔ اس نے ہمیں صراحت سے بتا دیا کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) کا دامن اس الزام سے بالکل پاک ہے یہ کارستانی سامری کی تھی جس نے بنی اسرائیل سے سونے کے زیور جمع کیے انہیں گلایا اور اس سے بچھڑے کا ڈھانچہ تیار کرلیا اور اپنی فنی مہارت سے اس میں یہ بات پیدا کردی کہ جب اس میں ہوا کا گزر ہوتا تو ایک بے معنی سی بیں بیں کی آواز نکلتی اور یہ کوئی مشکل نہیں آج ہم بیسیوں کھلونے ایسے دیکھتے ہیں جو بے جان ہوتے ہوئے طرح طرح کی حرکتیں کرتے ہیں اور مختلف نوعیت کی آوازیں نکالتے ہیں۔“ (ماخوذ از ضیاء القرآن ) مسائل: 1۔ بنی اسرائیل احسان فراموش اور جلد باز قوم ہے۔ 2۔ بنی اسرائیل کی وجہ سے دنیا میں گائے پرستی کا شرک پھیلا۔ تفسیر بالقرآن: الٰہ کے اوصاف : 1۔ الٰہ کا معنٰی معبود وہ ایک ہی ہے۔ ( البقرۃ:163) 2۔ الٰہ کا معنٰی مشکل کشا، حاجت روا۔ ( المؤمن :65) 3۔ اللہ تمھارا رب ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہی ہر چیز کا خالق ہے۔ (الانعام :102) 4۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا دو الٰہ نہ بناؤ الٰہ ایک ہی ہے (النحل :51) 5۔ الٰہ تمھارا ایک اللہ ہی ہے۔ (طہ :98) 6۔ کیا اللہ کے سوا کوئی الٰہ ہے؟ اللہ تعالیٰ شراکت داری سے پاک ہے۔ (الطور :43)