سورة طه - آیت 83

وَمَا أَعْجَلَكَ عَن قَوْمِكَ يَا مُوسَىٰ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور اے موسیٰ ! آپ نے اپنی قوم سے پہلے آجانے میں کتنی جلدی کی (٣١)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 83 سے 85) ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا کوہ طور کی طرف جانا اور ان کی عدم موجودگی میں ان کی قوم کا گمراہ ہونا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو بتلایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کوہ طور کی دائیں جانب فلاں مقام پر فلاں وقت حاضر ہونے کا حکم دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی حضرت ہارون (علیہ السلام) کو ہدایت فرمائی کہ وہ ان کی نیابت کرتے ہوئے بنی اسرائیل کی اصلاح کا فریضہ انجام دیتے رہیں یہ کہہ کر موسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے لیے کوہ طورکی دائیں جانب پہنچ کر عبادت میں مصروف ہوگئے۔ جونہی موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کو چھوڑ کر کوہ طور کے دامن میں معتکف ہوئے تو پیچھے سے ان کی قوم کے لوگوں نے بچھڑے کی پرستش شروع کردی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو استفسار فرمایا کہ اے موسیٰ ! آپ نے اس قدر یہاں آنے کی کیوں جلدی کی ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کی کہ اے میرے رب آپ کی ملاقات کی خواہش نے مجھے بے تاب کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا اے موسیٰ ! ہم نے آپ کے بعد آپ کی قوم کی آزمائش کی جنہیں سامری نے گمراہ کردیا ہے۔ ثابت ہوا کہ بنی اسرائیل بڑے ہی متلون مزاج اور طوطا چشم لوگ تھے۔ کیونکہ جب دریا عبور کرنے کے بعد بیت المقدس کی طرف سفر کر رہے تھے تو راستے میں انھوں نے ایسی قوم دیکھی جو اپنے بتوں کے سامنے اعتکاف کر رہی تھی۔ انھوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مطالبہ کر ڈالا کہ اے موسیٰ ہمارے لیے بھی ایسے خدا بنا دیجیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تم بڑے جاہل لوگ ہو۔ ﴿وَ جٰوَزْنَا بِبَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ الْبَحْرَ فَاَتَوْا عَلٰی قَوْمٍ یَّعْکُفُوْنَ عَلٰٓی اَصْنَامٍ لَّھُمْ قَالُوْا یٰمُوْسَی اجْعَلْ لَّنَآ اِلٰھًا کَمَا لَھُمْ اٰلِھَۃٌ قَالَ اِنَّکُمْ قَوْمٌ تَجْھَلُوْن۔ اِنَّ ھؤُلَآءِ مُتَبَّرٌ مَّا ھُمْ فِیْہِ وَ بٰطِلٌ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ قَالَ اَغَیْرَ اللّٰہِ اَبْغِیْکُمْ اِلٰھًا وَّ ھُوَ فَضَّلَکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ﴾ [ الاعراف :138] ” اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے پاراتارا۔ وہ ایسے لوگوں کے پاس سے گزرے جو اپنے بتوں پر جمے بیٹھے تھے کہنے لگے اے موسیٰ ہمارے لیے بھی کوئی معبود بنادے، جیسے ان کے معبود ہیں ! اس نے کہا تم تو جاہل لوگ ہو۔ بے شک یہ لوگ جس کام میں لگے ہوئے ہیں وہ تباہ کیا جانے والا ہے اور جو کچھ کرتے آرہے ہیں وہ باطل ہے۔ کیا میں اللہ کے سوا تمہارے لیے کوئی معبود تلاش کروں؟ حالانکہ اس نے تمہیں پوری دنیا پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔“ بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کے دیگر احسانات کے ساتھ یہ احسان بھی فراموش کردیا اور لمحہ بھر سوچنے کی زحمت نہ کی کہ ابھی تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دشمن سے نجات دی ہے اور ہمارے دشمن کو ذلیل و خوار کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ سامری کے بارے میں اہل قلم نے لکھا ہے کہ اس کا تعلق سامرہ قبیلہ کے ساتھ تھا۔ جس کی وجہ سے اسے سامری کہا گیا ہے۔ اس کا تعلق سامرہ شہر کے ساتھ نہیں تھا۔ جو بہت مدّت بعدفلسطین کا دارالحکومت بنا تھا۔ مسائل: 1۔ رب کی رضا حاصل کرنے کے لیے جلدی کرنا چاہیے۔ 2۔ بنی اسرائیل کو سامری نے راہ راست سے بھٹکا دیا۔ تفسیر بالقرآن: بنی اسرائیل کی جلد بازیاں : 1۔ بنی اسرائیل نے کھانے کی چیزیں طلب کرنے میں جلدبازی سے کام لیا۔ ( البقرۃ:61) 2۔ بنی اسرائیل نے اپنے رب کے حکم میں جلدی کی اور بچھڑے کی عبادت شروع کردی۔ ( الاعراف :150) 3۔ بنی اسرائیل نے جلد بازی میں مطالبہ کیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ ( البقرۃ:55) 4۔ بنی اسرائیل سوالات کرنے میں بڑے جلد باز تھے۔ ( البقرۃ: 68تا70) 5۔ اللہ تعالیٰ کے احکام پامال کرنے میں بنی اسرائیل جلد باز تھے۔ ( الاعراف :166)