سورة طه - آیت 77

وَلَقَدْ أَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ أَنْ أَسْرِ بِعِبَادِي فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقًا فِي الْبَحْرِ يَبَسًا لَّا تَخَافُ دَرَكًا وَلَا تَخْشَىٰ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور ہم نے موسیٰ کو وحی (٢٩) بھیجی کہ آپ میرے بندوں کو لے کر رات کے وقت نکل جایئے، پھر (اپنی لاٹھی کے ذریعہ) سمندر میں ان کے لیے ایک خشک راستہ بنا لیجیے، آپ نہ پکڑے جانے سے ڈریے گا اور نہ دل میں کسی اور خوف کو جگہ دیجیے گا۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 77 سے 79) ربط کلام : فرعون کے مظالم کی انتہا اور بنی اسرائیل کا مصر سے ہجرت کرنا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مؤثر ترین خطاب اور ان کے عظیم معجزہ کی وجہ سے ہزاروں لوگ ایمان لائے۔ جس بناء پر فرعون نے مظالم کا نیا سلسلہ شروع کیا۔ جس کے نتیجہ میں بنی اسرائیل کے مردوں کو قتل کیا جاتا اور ان کی عورتوں کو باقی رہنے دیا جاتا۔ مظالم کا یہ دور اس قدر اذّیت ناک اور سنگین تھا کہ مظلوم لوگ موسیٰ (علیہ السلام) سے ان الفاظ میں فریاد کرتے ہیں کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! آپ کی نبوت سے پہلے بھی ہم پر مظالم کیے گئے اور آپ کے نبی بننے کے بعد بھی ہم پر ظلم کے پہاڑ ڈھائے جا رہے ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انھیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا عنقریب تمھارا رب تمھارے دشمن کو ہلاک کرے گا اور تمھیں زمین پر حکمرانی دے گا۔ پھر وہ دیکھے گا کہ تم کیسا کردار پیش کرتے ہو۔ (الاعراف :129) جب موسیٰ (علیہ السلام) کی پیش گوئی کا وقت آن پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو وحی فرمائی کہ میرے بندوں کو رات کے وقت لے کر مصر سے نکل جاؤ۔ جب تم دریا کے کنارے پہنچو تو پانی پر لاٹھی مار نا جس سے دریا عبور کرنے کے لیے تمھارے لیے خشک راستے بناۓ جائیں گے۔ ہاں فرعون اور اس کے لشکر تمھارا پیچھا کریں گے۔ لیکن ان سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ فرعون اور اس کے لشکر و سپاہ کو غرق کردیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پوری رازداری کے ساتھ اپنے ساتھیوں کو ناصرف ہجرت سے آگاہ فرمایا بلکہ انھیں یہ بھی بتلا دیا کہ ہم فلاں وقت اور فلاں مقام پر دریا عبور کریں گے۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھیوں کا تعاقب کرتے ہوئے فرعون بھی اس مقام پر پہنچ گیا۔ جہاں بنی اسرائیل دریا عبور کر رہے تھے۔ نامعلوم فرعون نے اپنے ساتھیوں کو کیا کچھ کہہ کر دریا میں اترنے کا حکم دیا ہوگا۔ جونہی فرعون کی قیادت میں لشکر دریا میں داخل ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے دریا کی موجوں نے انھیں آلیا اور انھیں ڈبکیاں دے دے کر مار ڈالا۔ فرعون نے بار بار اس بات کی دہائی دی کہ میں موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے رب پر ایمان لاتاہوں لیکن اس کے ایمان کو یہ کہہ کر مسترد کیا گیا۔ تیرے ایمان لانے کا تجھے کیا فائدہ ؟ اب تیرے وجود کو عبرت کے طور پر رہتی دنیا کے لوگوں کے لیے باقی رکھا جائے گا۔ (یونس :92) اس موقع پر قرآن مجید صرف یہ بیان کرتا ہے کہ فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کیا اور اس نے کسی صورت بھی قوم کو راہ راست پر نہ آنے دیا۔ جس وجہ سے اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ غرق ہوا۔ مسائل: 1۔ فرعون خود بھی گمراہ تھا اور اس نے اپنی قوم کو بھی گمراہ کیا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کے لاؤ ولشکر کو غرق کردیا۔ تفسیر بالقرآن: فرعون اور اس کے حواریوں کا انجام : 1۔ آج ہم تیرے جسم کو بچائیں گے تاکہ بعد میں آنے والوں کے لیے نشان عبرت بنایا جائے۔ (یونس :92) 2۔ ہم نے انہیں ان کے گناہوں کی وجہ سے ہلاک کردیا۔ (الاعراف :164) 3۔ ہم نے فرعونیوں سے انتقام لیا اور انہیں سمندر میں غرق کردیا۔ (الزخرف :55) 4۔ ہم نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کو غرق کردیا۔ (بنی اسرائیل :103) 5۔ ہم نے موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کو نجات دی اور آل فرعون کو غرق کردیا۔ (الشعراء :66) 6۔ قیامت کے دن (فرعون) اپنی قوم کے آگے آگے چلے گا اور وہ انہیں دوزخ میں لے جائے گا۔ (ہود :98)