سورة طه - آیت 62

فَتَنَازَعُوا أَمْرَهُم بَيْنَهُمْ وَأَسَرُّوا النَّجْوَىٰ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

تو وہ اپنے معاملے میں آپس میں اختلاف کرنے لگے، اور سرگوشی کرنے لگے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 62 سے 64) ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خطاب کا اثر۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کو اس قدر مؤثر انداز میں خطاب فرمایا کہ وہ یہ بات سوچنے پر مجبور ہوئے کہ فی الواقع ہم باطل پر ہیں۔ قریب تھا کہ وہ دھڑوں میں تقسیم ہوجاتے لیکن بالآخر فرعون اور اس کے حواری جادوگر غالب رہے انھوں نے یہ کہہ کر عام وخاص کو مطمئن کیا کہ یہ دونوں جادوگر ہیں اور چاہتے ہیں کہ اپنے جادو کے ذریعے تمھیں ملک سے نکلنے پر مجبور کردیں اور تمھاری تہذیب، شاندار ترقی اور ملک کے نظام کو بدل ڈالیں۔ اس لیے لازم ہوگیا ہے کہ تم آخری معرکہ سمجھ کر پوری طرح صلاحیتوں اور اسباب کو مجتمع کرتے ہوئے منظم طریقے کے ساتھ صف بندی کرو۔ یادرکھو کہ جو آج غالب رہا وہی کامیاب سمجھا جائیگا۔ فرعون نے اپنی پارٹی کو متحد رکھنے کے لیے دو حربے استعمال کیے تھے جو ہمیشہ سے برسر اقتدار لوگ حق والوں کے خلاف استعمال کیا کرتے ہیں۔ 1۔ حضرت موسیٰ اور ہارون ( علیہ السلام) پر ہوس اقتدار کا الزام لگایا اور اپنے ساتھیوں کو اقتدار کی محرومی سے ڈرایا۔ 2۔ باطل حکمران ہمیشہ سے عوام میں یہ تاثر پیدا کرتے ہیں کہ ہمیں اقتدار سے الگ کردیا گیا تو ملک کی ترقی رک جائے گی اور قوم کی تہذیب و تمدن کو بڑا نقصان ہوگا۔ ان کی تہذیب و تمدن سے مراد وہ عیاشی اور فحاشی ہوتی ہے جس میں قوم کو مبتلا کر کے یہ لوگ اپنے اقتدار کو طول دیا کرتے ہیں۔ مسائل: 1۔ ہر باطل حکمران اپنے آپ کو ناگزیر سمجھتا ہے۔ 2۔ برے لوگ اپنی تہذیب و تمدن کو مثالی قرار دیتے ہیں۔ 3۔ حق کی جدوجہد میں ایک وقت ضرور آتا ہے کہ جب لوگ حقیقت جاننے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔