سورة طه - آیت 60

فَتَوَلَّىٰ فِرْعَوْنُ فَجَمَعَ كَيْدَهُ ثُمَّ أَتَىٰ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

پھر فرعون اٹھ کر چلا گیا اور اپنے تمام داؤ پیچ جمع کر کے دوبارہ آیا۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 60 سے 61) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے معاہدہ طے پانے کے بعد فرعون نے لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لیے اپنی حکومت کے تمام وسائل جھونک دیے۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ مصر کے قومی دن کے موقع پر پہلے ہی ملک کے دارالحکومت میں بہت بڑا اجتماع ہوتا تھا۔ جس میں مختلف قسم کے پروگرام پیش کیے جاتے اور پورے ملک میں جشن کا عالم ہوتا تھا۔ لیکن اس مرتبہ حکومت نے بہت بڑے اجتماع کو اپنے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بنالیا اور ایسا اجتماع منعقد کیا جس کی مثال مصر کی تاریخ میں پہلے سے موجود نہ تھی جب کثیر تعداد میں لوگ جمع ہوگئے۔ فرعون پورے شان وشکوہ اور دبدبہ کے ساتھ انتظامیہ اور پورے ملک کے جادوگروں کے ساتھ اجتماع میں نمودار ہوا۔ لوگوں کے جذبات انتہائی مشتعل تھے۔ ایک طرف جادوگروں کی فوج اور دوسری طرف صرف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) تھے۔ مگر اس تنہائی اور کسمپرسی کے باوجود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) بڑے اعتماد کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ جونہی ماحول قدرے پر سکون ہوا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جادوگروں اور حکمرانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم پر نہایت افسوس کہ تم اللہ تعالیٰ پر کذب بیانی کرتے ہو۔ اگر تم اپنی ضد پر قائم رہے تو وہ تمھیں تباہ و برباد کر دے گا۔ یاد رکھو جس نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولا وہ ناکام ہوا۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے سے مراد موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا انکار کرنا اور ان کے معجزات کو جادو قرار دینا تھا۔ رسول اپنے رب کی طرف سے بات کرتا ہے اس لیے رسول کو جھٹلانا اللہ تعالیٰ کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ یہاں فرعون کی کوشش اور اسباب کے لیے’’ کَیْدَ ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ جس کا معنی مکر و فریب ہوتا ہے۔ کیونکہ فرعون نے حقیقت جاننے کے باوجود موسیٰ (علیہ السلام) کی مخالفت میں سب کچھ کیا تھا اس لیے اسے فریب قرار دیا گیا ہے۔ مسائل: 1۔ رسول کو جھٹلانا اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے کے مترادف ہے۔ 2۔ جھوٹ بولنے والا بالآخر نامراد ہوتا ہے۔