قَالَ أَجِئْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ أَرْضِنَا بِسِحْرِكَ يَا مُوسَىٰ
فرعون نے کہا، اے موسیٰ ! کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ اپنے جادو کے زور سے ہمیں ہماری زمین سے نکال دو۔
فہم القرآن : (آیت 57 سے 59) ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے درمیان کشمکش کا دوسرا مرحلہ۔ فرعون نے اقتدار کے نشہ میں آکر موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے پیش کیے ہوئے تمام دلائل اور بڑے بڑے معجزات ٹھکرا دئیے۔ اقتدار بچانے، عوام اور لیڈروں کو ساتھ رکھنے کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) پر الزام لگایا کہ یہ رسول ہونے کی بجائے جادوگر ہیں اور جادو کے زور پر ہمارے اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا مقصد ہے کہ ہمیں ملک سے نکال کر یوسف (علیہ السلام) کی طرح بنی اسرائیل کو مصر میں برسراقتدار لائیں۔ فرعون جانتا تھا کہ جادو میں اس طرح کی طاقت نہیں ہوتی کہ کوئی اس کے زور پر اقتدار یا کسی کی چیز پر قبضہ کرسکے۔ فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو چیلنج کیا ہم اس طرح اقتدار چھوڑنے والے نہیں بلکہ ہم تمھارے جادو کا مقابلہ جادو کے ساتھ کریں گے۔ بس ہمارے اور تمھارے درمیان ایک معاہدہ طے پانا چاہیے جس کی نہ ہم مخالفت کریں گے اور نہ تمھیں مخالفت کرنا چاہیے۔ گویا کہ دونوں فریقوں کو اس کی پوری پوری پاسداری کرنا ہوگی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ بالکل ایسا ہی ہونا چاہیے۔ لیکن قومی تہوار کا دن مقرر کیا جائے اور وقت بھی سورج نکلنے کے بعد کا ہو۔ تاکہ لوگ کثیر تعداد میں جمع ہو کر دن کی روشنی میں کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھ سکیں کہ حقیقت کیا ہے۔ یہ موسیٰ (علیہ السلام) کے دل کی مراد تھی کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) اتنا بڑا اجتماع کرنے کے وسائل اور اثر رسوخ کہاں رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون کے ہاتھوں ہی یہ کام کر دکھایا تاکہ موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا چرچا اور ان کا پیغام پوری قوم تک پہنچ جائے۔ یاد رہے بڑے بڑے انبیاء کرام (علیہ السلام) پر ان کی قوم نے یہی الزام لگایا کہ یہ جادوگر ہے۔ اس الزام کا بنیادی سبب یہ ہے کہ لوگ انبیاء (علیہ السلام) کی صورت و سیرت اور ان کی دعوت کی طرف متوجہ ہوجایا کرتے تھے جس بنا پر ان کے مخالف ان پر جادوگر ہونے کا الزام لگایا کرتے تھے۔ حالانکہ جادو کرنا، کروانا کفر ہے جس کا انبیاء (علیہ السلام) کے بارے میں تصور نہیں کیا جا سکتا۔ (لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَطَیَّرَ اَوْتُطُیِّرَلَہٗ اَوْتَکَھَّنَ اَوْتُکُھِّنَ لَہُ اَوْ سَحَرَ اَوْ سُحِرَ لَہُ وَمَنْ اَتیٰ کَا ھِنًا فَصَدَّقَہُ بِمَا یَقُوْلُ فَقَدْ کَفَرَ بِمَااُنْزِلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ) (الترغیب والترہیب) ” جو شخص فال نکالے یا اس کے لیے فال نکالی جائے‘ کوئی غیب کی خبریں دے یا اس کے لیے کوئی دوسرا ایسی خبر دے ایسے ہی کوئی خود جادوگر ہو یا دوسرا شخص اس کے لیے جادو کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ جو کوئی ایسے شخص کے پاس جائے اور اسکی باتوں کی تصدیق کرے اس نے ہر اس بات کا انکار کیا جو محمد (ﷺ) پر نازل ہوئی ہے۔“ مسائل: 1۔ انبیاء کے معجزات کو کفار جادو تصور کرتے تھے۔ تفسیر بالقرآن: انبیاء (علیہ السلام) پر الزام اور جادو کی حقیقت : 1۔ آل فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر جادو گرہونے کا الزام لگایا۔ (القصص :36) 2۔ کفار نے تمام انبیاء (علیہ السلام) کو جادوگر اور دیوانہ قرار دیا۔ (الذاریات :52) 3۔ کفار کے پاس حق بات آئی تو انھوں نے اسے جادو قرار دیا۔ (سباء :43) 4۔ جب لوگوں کے پاس حق آیا تو انھوں نے کہا یہ تو جادو ہے ہم اسے نہیں مانتے۔ (الزخرف :30) 5۔ نبی اکرم (ﷺ) کو اہل مکہ نے جادوگر کہا۔ ( الصف :6) 6۔ نبی (ﷺ) کو جادو زدہ کہا گیا۔ (الفرقان : 8۔ بنی اسرائیل :47) 7۔ قرآن جادو ہے کیا تم غور نہیں کرتے۔ (الطور :15) 8۔ جادوکفر ہے۔ (البقرۃ:102) 9۔ جادو کی اصلیت نہیں ہوتی۔ (الاعراف :116) 10۔ جادو شیاطین کے ذریعے ہوتا ہے۔ (البقرۃ :102) 11۔ جادوگر کامیاب نہیں ہوتا۔ (طٰہٰ:69)