سورة طه - آیت 53

الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْدًا وَسَلَكَ لَكُمْ فِيهَا سُبُلًا وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّن نَّبَاتٍ شَتَّىٰ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

جس نے زمین کو تمہارے واسطے بچھونا بنایا اور اس میں تمہارے چلنے کے راستے بنائے ہیں اور آسمان سے بارش نازل کیا ہے، پس ہم نے اس کے ذریعہ مختلف اقسام کے پودے نکالے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 53 سے 54) ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی صفات کا مزید تذکرہ۔ فرعون اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی گفتگو کا ایک حصہ بیان کرنے کے بعد یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے بہترین اسلوب بیان اور کلام کے موقع محل کے مطابق اپنی توحید کے دلائل دیتے ہوئے انسان کو سمجھایا ہے کہ اے انسان اللہ وہ ذات ہے جس نے تمھارے لیے زمین کو فرش بنایا۔ پھر اس میں آمد و رفت کے لیے تمھارے لیے راستے بنائے۔ وہی آسمان سے بارش برساتا ہے اور پھر اس بارش کے ساتھ مختلف قسم کے نباتات پیدا کرتا ہے۔ ان کو اگانے کا مقصد یہ ہے کہ خود کھاؤ اور اپنے جانوروں کو کھلاؤ۔ اگر تم عقل سے کام لو تو ان میں تمھارے لیے اپنے رب کو پہچاننے کے بہت سے دلائل ہیں۔ اس فرمان میں توحید کے اس قدر ٹھوس اور سادہ دلائل دیے گئے ہیں جن کا متعصب آدمی کے سوا کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا۔ کیونکہ زمین کو فرش بنانے، اس میں راستے نکالنے، آسمان سے بارش برسانے اور اس سے نباتات اگانے میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا عمل دخل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کلام پر قربان جائیں یہاں اس لیے یہ دلائل دیے گئے ہیں کیونکہ فرعون نے خاص و عوام کا عقیدہ بنا رکھا تھا کہ ملک کی شادابی، خوشحالی اور ترقی میرے وجود کی برکت اور منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ اسی بنا پر اس نے اپنی قوم کو باطل عقیدہ پر پختہ رکھنے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کو ناکام کرنے کے لیے کہا تھا۔ ” اے میری قوم ! کیا میں مصر کا بلاشرکت غیرے حکمران نہیں ہوں ؟ اور میں نے اپنے پاؤں تلے بھی نہریں جاری کر رکھی ہیں تمھیں اس پر غور کرنا چاہیے۔ فرعون کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے شہروں میں زیر زمین (Water System) زراعت کے لیے آبپاشی کا منفرد نظام قائم کر رکھا تھا بے شک میں موسیٰ کے مقابلہ میں ہر اعتبار سے بہتر ہوں۔ موسیٰ تو نہ کوئی عزت رکھتا ہے اور نہ ہی صاف گفتگو کرسکتا ہے۔ (الزخرف : ٥٢) یاد رہے یہاں عقل کے لیے ” نُہٰی“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کا معنی ہے ” روکنے والی چیز۔“ کیونکہ عقل سلیم انسان کو برائی اور بے حیائی سے روکتی ہے اس لیے اس کے لیے ” النُّھٰی“ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ لفظ استعمال فرما کر فرعون اور اس کے ساتھیوں کو بتلایا کہ اگر تمہاری عقل کام کرتی ہے تو تمہیں اپنے باطل عقیدہ اور ظالمانہ رویے سے باز آجا نا چاہیے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے ہی لوگوں کے لیے زمین کو فرش بنایا اور راستوں کی رہنمائی کی۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہی آسمان سے بارش برسا کر مختلف قسم کی نباتات پیدا کرتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے نباتات، فصلیں اور ہر قسم کا اناج اور پھل اس لیے پیدا کیا تاکہ انسان خود کھائے اور اپنے جانوروں کو کھلائے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کو پہچاننے کے لیے نباتات میں اس کی قدرت کے بے شمار دلائل ہیں۔ 5۔ عقل سلیم وہ ہے جو انسان کو ہر قسم کی برائی اور نقصان سے روکے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کس طرح اناج، پھل اور نباتات کو پیدا کرتا ہے : 1۔ اللہ پانی سے تمہارے لیے کھیتی، زیتون، کھجور اور انگور اگاتا ہے۔ (النحل :11) 2۔ اللہ نے کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کیے۔ (المومنون :19) 3۔ اللہ نے زمین میں کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کیے۔ (یٰس :34) 4۔ اللہ نے پانی سے ہر قسم کی نباتات کو پیدا کیا۔ (الانعام :99) 5۔ اللہ نے باغات، کھجور کے درخت اور کھیتی پیدا کی جوذائقہ کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ (الانعام :141) 6۔ تمہارے لیے مسخر کیا نباتات کو زمین پر پھیلاکر، ان کی اقسام مختلف ہیں۔ (النحل :13) 7۔ انہوں نے کھیتی اور مویشیوں میں سے کچھ حصہ اللہ کا مقرر کیا ہے جو اللہ ہی نے پیدا فرمائے ہیں۔ (الانعام :136)