أُولَٰئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَىٰ فَمَا رَبِحَت تِّجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ
یہی تو ہیں وہ لوگ جنہوں نے ہدایت دے کر گمراہی (32) خرید لی، لیکن ان کی تجارت (33) نفع بخش نہ ہوئی اور وہ لوگ ہدایت پانے والے نہیں تھے
فہم القرآن : ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے سورۃ الصف میں ایمان، نیک اعمال اور جہاد کو اپنے ساتھ تجارت کرنے کے مترادف قرار دیا ہے منافق ایمان اور اعمال میں مخلص نہیں ہوتے اس لیے وہ اس تجارت میں ہدایت کے بدلے گمراہی کے خریدار بن جاتے ہیں اور دھوکہ باز کی تجارت دینی ہو یا دنیوی اس کا انجام آخر خسارہ ہوتا ہے۔ ایمان کے جھوٹے دعوے اور اس جھوٹ کے ذریعے مومنوں کو دھوکہ دینے کی بنا پر منافقوں کے دل ایمان کی روشنی اور صحیح فیصلہ کرنے کی بصیرت سے محروم ہوچکے ہیں۔ منافق کی حالت اس شخص جیسی ہوچکی ہے جو نقص بصر کی وجہ سے ہر چیز کو ٹیڑھا دیکھتا ہے۔ اسی بنا پر منافق ایمان اور بصیرت سے محروم ہونے کی وجہ سے فساد کو اصلاح اور صحابہ کے ایمان کو غیر دانشمندانہ اقدام اور بے وقوفی قرار دیتے ہیں۔ مزید برآں کہ اللہ کی طرف سے ان کی رسی دراز ہوچکی ہے۔ جس بنا پر یہ عقل و دانش سے اندھے حقیقی اور دائمی نفع ونقصان میں فرق کرنے کی صلاحیت سے تہی دامن ہوچکے ہیں۔ اس وجہ سے نفع کی بجائے نقصان پانے والے سوداگر بن چکے ہیں۔ حالانکہ کم سے کم عقل رکھنے والا انسان بھی وہ کام کرتا ہے جس میں اسے زیادہ سے زیادہ فائدہ دکھائی دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو نفع و نقصان کا اس قدر شعور بخشا ہے کہ ایک گنوار اور اَن پڑھ ریڑھی لگانے والے محنت کش کو معلوم ہوجائے کہ اس کے مال کی قیمت فلاں بازار یا شہر میں زیادہ ہے۔ تو وہ وہاں جانے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ لیکن اللہ اور اس کے بندوں کو دھوکہ دینے والے منافق اس قدر کوتاہ چشمی کا شکار ہوچکے ہوتے ہیں کہ انہیں ایمان وایقان اور کفر و نفاق، آخرت اور دنیا کی نعمتوں میں فرق دکھائی نہیں دیتا۔ جب کہ دنیا آخرت کی کھیتی اور نیک اعمال آخرت کی نعمتوں کی قیمت ہیں۔ دنیا دارالعمل اور تجارت گاہ ہے اس بنا پر فطری طور پر انسان کے ہر عمل کے پیچھے نفع اور نقصان کی سوچ کار فرما ہوتی ہے۔ اچھی سوچ کے بدلے ہدایت نصیب ہوتی ہے ہدایت اور نیک عمل کے بدلے جنت عطا ہوگی۔ قرآن مجید نے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا اور مال و جان کے ساتھ دین کی سر بلندی کے لیے کوشش کرنے کو بہترین نیکی اور تجارت قرار دیا ہے۔ (الصف : 11تا13) قتال فی سبیل اللہ کے بیان میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانوں کے بدلے جنت کا سودا کرلیا ہے۔ (التوبۃ:111) مومن اپنے رب کی تابعداری کرکے اس کی رضا کا طلب گار اور جنت کا خریدار بن جاتا ہے۔ منافق اپنی منافقت اور کافر اپنے کفر کی وجہ سے اس سودا گری میں دنیا کی ذلت اور آخرت کی سزا کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ منافق جس عارضی عزت اور منفعت کے لیے جو کچھ کرتا ہے وہ حقیقت میں نقصان اور ہدایت سے محرومی کا نتیجہ ہے۔ جب کوئی شخص جان بوجھ کر خسارے کی تجارت کرنے سے باز نہ آئے تو اسے نفع کیونکر ہوسکتا ہے؟ یہی ہدایت کا معاملہ ہے لہٰذا گمراہی کا طالب ہدایت کس طرح پاسکتا ہے؟ اس لئے ارشاد ہوا کہ یہ لوگ ہدایت نہیں پائیں گے۔ اللہ تعالیٰ سے ہدایت طلب کرتے رہنا چاہیے : (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ عَنِ النَّبِیِّ {ﷺ}أَنَّہُ کَانَ یَقُول اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ الْہُدَی وَالتُّقَی وَالْعَفَافَ وَالْغِنَی) (رواہ البخاری : باب التَّعَوُّذِ مِنْ شَرِّ مَا عَمِلَ وَمِنْ شَرِّ مَا لَمْ یَعْمَلْ) ” حضرت عبداللہ {رض}نبی کریم {ﷺ}سے بیان کرتے ہیں کہ آپ {ﷺ}یہ دعا کیا کرتے تھے۔ اے اللہ ! میں تجھ سے ہدایت، پرہیزگاری، تندرستی اور خوشحالی کا سوال کرتا ہوں۔“ سابقہ آیات میں منافقین کی نشانیاں : 1-منافق دعوی ایمان میں جھوٹا ہوتا ہے۔ 2-منافق شعور سے تہی دامن ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو دھوکہ دیتا ہے۔ 3-منافقت دل کی بیماری ہے۔ 4-منافق اصلاح کے نام پر فساد پھیلاتا ہے۔ 5-منافق احمق ہونے کے باوجود مومنوں کو بے عقل سمجھتا ہے۔ 6-منافق ایمان جیسی گراں قدر نعمت کو مذاق سمجھتا ہے۔ 7-منافق ہدایت کی بجائے گمراہی کا طلب گار ہوتا ہے۔ مسائل : 1- منافقین ہدایت کے بدلے گمراہی کے خریدار ہیں۔ 2- منافقین کی یہ تجارت سود مند نہ ہوگی۔ تفسیر بالقرآن : منافق کا کردار اور انجام : 1- منافق دغا باز، ریا کار اور بے توجہگی کے ساتھ نماز پڑھتا ہے۔ (النساء :142) 2- منافق کے کلمہ پر اعتبار نہیں کیونکہ وہ جھوٹا ہوتا ہے۔ (المنافقون :1) 3- منافق کی قسم پر اعتبار نہیں کیونکہ وہ اسے ڈھال کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ (المنافقون :2) 4- منافق جہنم کے نچلے طبقہ میں ہوں گے۔ (النساء :145) 5- منافق کفار سے دوستی رکھتا ہے۔ (البقرۃ: 14)