وَنَسُوقُ الْمُجْرِمِينَ إِلَىٰ جَهَنَّمَ وِرْدًا
اور مجرموں کو جہنم کی طرف پیاسا ہانک کرلے جائیں گے۔
فہم القرآن: (آیت 86 سے 87) ربط کلام : متقین کے مقابلہ میں مجرمین کا انجام۔ ایک طرف متقین کو انعام و اکرام کے ساتھ نوازا جارہا ہوگا اور دوسری طرف مجرمین کو ملائکہ بیڑیوں میں جکڑ کر آگ کے کوڑوں سے ہانکتے ہوئے جہنم کی طرف دھکیل رہے ہوں گے۔ مجرم خوف اور پیاس کی شدت کی وجہ سے ہلکان ہو رہے ہوں گے۔ کیونکہ قیامت کا دن پچاس ہزار سال کا ہوگا۔ مجرمین تانبے جیسی زمین پر کھڑے ہونگے جس پر سورج اپنی پوری تپش اور شدت کے ساتھ ایک میل کے فاصلہ پر ہوگا۔ مزید یہ کہ مجرم جہنم کو اپنے سامنے دیکھیں گے۔ اس خوف اور سورج کی حدّت کی وجہ سے پیاس کے مارے ان کے کلیجے کٹ رہے ہوں گے اور زبانیں منہ سے باہر نکلی ہوں گی۔ اس کیفیت میں انھیں جہنم کی طرف دھکیلا جائے گا۔ دنیا میں جن لوگوں پر یہ اعتماد اور بھروسہ کرتے تھے وہ ان کی کوئی سفارش نہیں کرسکیں گے۔ سفارش تو ان لوگوں کے حق میں وہی لوگ کرسکیں گے جن کو اللہ تعالیٰ اجازت عنایت فرمائے گا۔ ظاہر ہے مشرک اور کافر کی کوئی بھی سفارش نہیں کرسکے گا اور نہ یہ ایک دوسرے کی مدد کرسکیں گے۔ ﴿اَلرَّحْمٰنَ﴾ سے عہد لینے سے مراد اس کی طرف سے سفارش کی اجازت ملنا ہے۔ مسائل: 1۔ مجرمین کو جہنم میں دھکیلا جائے گا۔ 2۔ مجرموں کی کوئی سفارش کرنے والا نہیں ہوگا۔ 3۔ سفارش وہی شخص کرسکے گا جس کو رب رحمٰن اجازت عنایت فرمائیں گے۔ تفسیر بالقرآن: قیامت کے دن سفارش و شفاعت کے اصول : 1۔ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش کا حقدار نہ ہوگا۔ (یونس :3) 2۔ صرف اللہ تعالیٰ کی اجازت سے سفارش ہو سکے گی۔ (البقرۃ:255) 3۔ سفارش کا اختیار اسی کو ہوگا جسے رحمن اجازت دے گا۔ (مریم :87) 4۔ شفاعت اسی کے حق میں ہوگی جس پر رحمن راضی ہوا۔ (طٰہٰ:109)