سورة مريم - آیت 83

أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّيَاطِينَ عَلَى الْكَافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

کیا آپ نہیں دیکھتے کہ ہم نے شیطانوں (٥٠) کو کافروں کے پیچھے لگا رکھا ہے وہ انہیں (کفر و معاصی پر خوب ابھارتے رہتے ہیں۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 83 سے 84) ربط کلام : کفر و شرک کا بنیادی محرّک اور سبب شیطان ہوتا ہے۔ جب شیطان انسان پر مسلط ہوجائے تو انسان غیر اللہ کی عبادت کرنے میں لذت محسوس کرتا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ اے نبی (ﷺ) ! کیا آپ نے غور نہیں کیا کہ ہم شیاطین کو کفار کی طرف بھیجتے ہیں جو انھیں کفر و شرک پر ابھارتے ہیں۔ شیاطین سے مراد جناّت اور وہ انسان ہیں جو لوگوں کو برائی اور کفر و شرک پر آمادہ کرتے ہیں۔ ان میں وہ علماء، پیر اور حکمران بھی شامل ہیں جو لوگوں کو شرک وبدعت کا سبق دیتے ہیں یا ایساماحول بناتے ہیں جس سے شرک وبدعت کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کی سزا کے بارے میں جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں مہلت دے رکھی ہے لیکن اس کا یہ معنٰی نہیں کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی دسترس سے باہر اور اس کے علم میں نہیں ہیں، ایسا ہرگز نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال اور دن شمار کر رہا ہے۔ قیامت کے دن انھیں ایک ایک عمل کا حساب چکا دیا جائے گا۔ دن شمار کرنا ہر زبان میں ایک محاورہ ہے جو دھمکی کے معنٰی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے شیطان بھیجنے کا معنی ڈھیل دینے کے مترادف ہے۔ ﴿وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَہٗ شَیْطٰنًا فَہُوَ لَہٗ قَرِیْنٌ وَاِِنَّہُمْ لَیَصُدُّونَہُمْ عَنْ السَّبِیْلِ وَیَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ مُہْتَدُوْنَ [ الزخرف : 36۔37] ” اور جو شخص اللہ کی یاد سے منہ موڑتا ہے ہم اس پر ایک شیطان مسلّط کردیتے ہیں۔ وہ اس کا ساتھی ہوجاتا ہے۔ اور یقیناً شیطان ان کو راستے سے روکتے رہتے ہیں۔ گمراہ لوگ گسمجھتے ہیں کہ وہ سیدھی راہ پر گامزن ہیں۔“ مسائل: 1۔ کفر و شرک اختیار کرنے والوں پر شیطان مسلّط ہوتا ہے۔ 2۔ شیطان انسان کو شرک و بدعت اور برائی کے راستہ پر ڈالتا ہے۔