سورة مريم - آیت 68

فَوَرَبِّكَ لَنَحْشُرَنَّهُمْ وَالشَّيَاطِينَ ثُمَّ لَنُحْضِرَنَّهُمْ حَوْلَ جَهَنَّمَ جِثِيًّا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

پس آپ کے رب کی قسم ! ہم انہیں اور شیاطین کو ضرور اکٹھا کریں گے، پھر انہیں جہنم کے گرد حاضر کریں گے اس حال میں کہ وہ گھٹنوں کے بل گرے ہوں گے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 68 سے 70) ربط کلام : کوئی قیامت کا انکار کرے یا اقرار کرے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز سب کو اپنی بارگاہ میں جمع کرے گا۔ مرنے کے بعد قیامت کے دن زندہ ہونے کی حقیقت اس قدر عقلی اور شرعی دلائل پر مبنی ہے جس کا انکار کرنا ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں۔ اس سے پہلی آیت میں انسان کی تخلیق کے حوالے سے اسے سمجھایا ہے کہ انسان اپنی پیدائش پر غور کرے تو اسے معلوم ہوجائے گا جس رب نے اسے عدم سے وجود بخشا ہے کہ وہ دوبارہ اسے کیونکہ زندہ نہیں کرسکتا؟ اس لیے رب ذوالجلال نے اپنی ذات کی قسم اٹھا کر فرمایا ہے کہ اے نبی آپ کا رب نہ صرف انھیں اپنے حضور اکٹھا کرے گا بلکہ جس شیطان نے انسان کو گمراہ کیا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اسے بھی ہر مجرم کے ساتھ عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرے گا۔ مجرم جہنم کے پاس گھٹنوں کے بل کھڑے ہوں گے۔ یعنی جہنم کی ہولناکیوں اور اس کی چٹخار سن کر خوف کے مارے ان سے کھڑا نہیں ہوا جائے گا۔ شیاطین کے ساتھ کفر و شرک کے ان سرداروں اور نمائندوں کو بھی مجرم کے ساتھ کھڑا کیا جائے گا جو رب رحمٰن کی نافرمانی میں دنیا میں آگے آگے تھے۔ یہ ائمۃ الکفر اپنے کارکنان اور مریدوں کے آگے آگے ہوں گے جب جہنم میں داخل ہونے والے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انھیں رک جانے کا حکم دیں گے۔ ان سے پوچھا جائے گا کہ تم ایک دوسرے کی کیوں نہیں مدد کرتے۔ اسی بات کو قرآن مجیدنے دوسرے مقام پر یوں بیان کیا ہے۔ ” جو لوگ ظلم کرتے تھے ان کو اور ان کے ساتھیوں اور جن کو وہ پوجا کرتے تھے سب کو جمع کرلو اور انہیں ان کو جہنم کے رستے پر چلا دو۔ اور ان کو ٹھیرائے رکھو کہ ان سے پوچھنا ہے۔ تمہیں کیا ہوا ہے کہ ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے بلکہ آج تو وہ فرمانبردار بنے ہوئے ہیں۔“ (الصافات : 22تا27) (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ () امْرُؤُ الْقَیْسِ صَاحِبُ لِوَاء الشُّعَرَاءِ إِلَی النَّارِ) [ رواہ احمد : مسندابی ہریرہ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ زمانہ جاہلیت کے شاعروں کا جھنڈا امراء القیس کے ہاتھ میں ہوگا وہ ان کو لے کر جہنم داخل ہوگا۔“ مسائل: 1۔ قیامت ہر صورت برپا ہو کر رہے گی۔ 2۔ قیامت کے دن مجرم کے ساتھ اس کو بہکانے والے شیاطین اور گمراہ رہنماؤں کو بھی اکٹھا کیا جائے گا۔ 3۔ مجرم جہنم کے کنارے گھٹنوں کے بل گرے ہوئے ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن: جہنّم میں داخلہ کے وقت جہنمیوں کی کیفیت : 1۔ اے ہمارے رب ہمیں تھوڑی دیر کے لیے مہلت دے ہم تیری حکم کو قبول اور تیرے رسول کی بات کو تسلیم کریں گے۔ (ابراہیم :44) 2۔ جہنمی کہیں گے اے اللہ ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب ہم کو واپس لوٹا دے۔ (السجدۃ:12) 3۔ اے ہمارے پروردگار ہمیں یہاں سے نکال ہم برے اعمال کی بجائے نیک عمل کریں گے۔ (الفاطر :37) 4۔ اے ہمارے رب! ہمیں یہاں سے نکال اگر دوبارہ ایسا کریں تو بڑے ظالم ہوں گے۔ (المومنون :107) 5۔ اے اللہ جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا انہیں دوگنا عذاب کیا جائے۔ ( الاحزاب :68) 6۔ جب بھی جہنم سے نکلنے کا ارادہ کریں گے تو دوبارہ لوٹائے جائیں گے۔ (السجدۃ:20) 7۔ ہر جہنمی کی خواہش ہوگی کہ دنیا میں واپس بھیج دیا جائے۔ (الانعام : 27تا28)