فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا
پھر ان کے بعد ان کی اولاد میں ایسے لوگ آئے جنہوں نے نماز کو ضائع (٣٧) کردیا اور خواہشات کی پیروی کی، تو وہ قیامت کے دن (جہنم کی وادی) غی میں جگہ پائیں گے۔
فہم القرآن: (آیت 59 سے 60) ربط کلام : انبیاء کرام کی اولاد میں ان کے خلف الرشید بھی ہوئے اور ناخلف بھی ہوئے۔ ناخلف اولاد کا انجام۔ اللہ تعالیٰ اپنے اصول کے مطابق دین کی نعمت اور حقیقی احترام اسی شخص دیتا ہے جو دین کی قدر اور اس پر عمل کرتا ہے۔ بے شک وہ کسی غیر معروف باپ کا بیٹا اور غریب کیوں نہ ہو۔ اس کے مقابلے میں کوئی نبی کا صاحبزادہ ہو کر اللہ اور اس کے نبی کی اطاعت کا انکاری ہے تو وہ دنیا و آخرت کی رسوائی سے نہیں بچ سکتا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے کی مثال سب کے سامنے ہے۔ وہ پانی میں ڈبکیاں لینے لگا تو حضرت نوح (علیہ السلام) نے پدرانہ شفقت کی بناء پر اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ یہ میرا بیٹا ہے اور آپ نے وعدہ فرمایا تھا کہ میں تیری آل کو بچالوں گا جس کا جواب دیا گیا کہ اے نوح (علیہ السلام) ! تیرا بیٹا تیرے اہل میں نہیں رہا کیونکہ اس کے اعمال اچھے نہیں۔ اگر آئندہ آپ نے اس کے بارے میں سوال کیا تو ہم آپ کو جاہلوں میں شمار کریں گے۔ (سورۃ ہود :46) اسی اصول کو یہاں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ بعض انبیائے کرام (علیہ السلام) کی اولاد میں ایسے ناخلف پیدا ہوئے جنھوں نے نماز کو ضائع کیا اور اپنی بری خواہشات کے پیچھے لگے۔ عنقریب انھیں ہلاکت کے گڑھے میں پھینک دیا جائے گا۔ ” غیًا“ سے مراد جہنم کا ایک مخصوص گڑھا ہے۔ جس سے جہنم بھی پناہ مانگتی ہے جہنم سے ان لوگوں کو بچا لیا جائے گا۔ جنھوں نے کفر و شرک اور برے اعمال سے توبہ کی۔ اپنے رب پر سچے دل کے ساتھ ایمان لائے اور ایمان کے تقاضے پورے کرتے ہوئے صالح اعمال کیے انھیں جنت میں داخل کیا جائے گا ان کے اعمال اور جزا میں کسی قسم کی کمی نہیں کی جائے گی۔ 1۔ جب الحزن سے پناہ مانگو (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) تَعَوَّذُوا باللَّہِ مِنْ جُبِّ الْحُزْنِ قَالُوا یَا رَسُول اللَّہِ وَمَا جُبُّ الْحُزْنِ قَالَ وَادٍ فِی جَہَنَّمَ تَتَعَوَّذُ مِنْہُ جَہَنَّمُ کُلَّ یَوْمٍ مائَۃَ مَرَّۃٍ قُلْنَا یَا رَسُول اللَّہِ وَمَنْ یَدْخُلُہُ قَالَ الْقُرَّاءُ الْمُرَاءُ ونَ بِأَعْمَالِہِمْ) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی الرِّیَاءِ وَالسُّمْعَۃِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا۔ جب الحزن سے اللہ کی پناہ مانگو صحابہ نے عرض کی اللہ کے رسول (ﷺ) جب الحزن کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا جہنم کی ایک وادی ہے جس سے جہنم بھی ایک دن میں سو بار پناہ مانگتی ہے ہم نے عرض کی اے اللہ کے رسول اس میں کون داخل ہوگا آپ نے فرمایا قراء جو اپنے اعمال میں دکھلاوا کرتے ہیں۔“ 2۔ نماز ضائع کرنے والے کا گناہ : (عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) مِنْ فیہِ إِلَی فِیَّ لاَ أَقُولُ حَدَّثَنِی فُلاَنٌ وَلاَ فُلاَنٌ خَمْسُ صَلَوَاتٍ افْتَرَضَہُنَّ اللَّہُ عَلَی عِبَادِہِ فَمَنْ لَقِیَہُ بِہِنَّ لَمْ یُضَیِّعْ مِنْہُنَّ شَیْئاً لَقِیَہُ وَلَہُ عِنْدَہُ عَہْدٌ یُدْخِلُہُ بِہِ الْجَنَّۃَ وَمَنْ لَقِیَہُ وَقَدِ انْتَقَصَ مِنْہُنَّ شَیْئاً اسْتِخْفَافاً بِحَقِّہِنَّ لَقِیَہُ وَلاَ عَہْدَ لَہُ إِنْ شَاءَ عَذَّبَہُ وَإِنْ شَاءَ غَفَرَ لَہُ) [ رواہ احمد: مسند عبادۃ بن صامت] ” حضرت عبادہ بن صامت ہُرَیْرَۃَبیان کرتے ہیں کہتے ہیں میں یہ نہیں کہتا کہ مجھے فلاں، فلاں نے بیان کیا بلکہ رسول اللہ (ﷺ) نے بذات خود مجھے فرمایا، کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر پانچ نمازیں فرض کیں ہیں، جو شخص اللہ تعالیٰ کو اس حال میں ملے گا کہ اس نے نمازوں میں سے کوئی نماز ضائع نہ کی ہوگی۔ جب اللہ سے ملے گا تو اللہ تعالیٰ کا عہد ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل کرے گا، اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے کہ اس نے نماز ترک کر رکھی تھی۔ وہ اللہ سے ملے گا تو اللہ کا اس کے ساتھ کوئی عہد نہیں اگر چاہے اسے عذاب دے اور اگر چاہے تو معاف فرما دے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے اور نیک عمل کرنے والوں کو جنت میں داخل کیا جائے گا۔ 2۔ نیک لوگوں کی جزا میں کسی قسم کی کمی نہیں ہونے پائے گی۔ 3۔ نماز ضائع کرنے اور اپنی خواہش کے پیچھے لگنے والوں کو جہنم میں داخل کیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن: نماز کی اہمیّت اور فضیلت : 1۔ نماز کی حفاظت کرو خصوصاً درمیانی نماز کی۔ (البقرۃ:238) 2۔ نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ (العنکبوت :45) 3۔ ایمان لانے والے اور نیک اعمال کرنے والے نماز قائم کرنے والے اور زکوٰۃ ادا کرنے والوں پر کسی قسم کا خوف نہیں ہوگا۔ ( البقرۃ:227)