وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِندَ رَبِّهِ مَرْضِيًّا
اور اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوۃ کا حکم دیتے تھے اور وہ اپنے رب کے نزدیک بڑے پسندیدہ تھے۔
فہم القرآن: ربط کلام : حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی دعوت کا خلاصہ : اللہ کی توحید کے بعد دین میں سب سے پہلے جس بات پر زور دیا گیا ہے وہ نماز اور زکوٰۃ ہے انھی سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ ان کا اہتمام اور ابلاغ کرنے کی بناء پر حضرت اسماعیل (علیہ السلام) اپنے رب کے مقرب ترین بندے بن گئے۔ نماز اللہ اور بندے کے درمیان عابد اور معبود ہونے کی ترجمان ہے۔ نماز سے بڑھ کر انسان کا اپنے رب کے قریب ہونے کا کوئی اور ذریعہ نہیں۔ پنجگانہ نماز سے قلبی اطمینان، جسمانی طہارت اور یہ مسلمانوں کا آپس میں رابطے کا قریب ترین ذریعہ ہے۔ زکوٰۃ طبیعت کے بخل اور سرمایہ داری کے خلاف ایک طرح کی سالانہ مہم ہے۔ جس سے ایک طرف مالدار کا مال پاک ہوتا ہے اور دوسری طرف غرباء، مساکین اور دیگر کمزور طبقات کے ساتھ مالی معاونت ہوتی ہے۔ اس لیے اسے اسلام کا خزانہ کہا گیا ہے۔ (عَنْ ابْنِ عُمَرَ (رض) أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَشْہَدُوا أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُول اللّٰہِ وَیُقِیمُوا الصَّلَاۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکَاۃَ فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِکَ عَصَمُوا مِنِّی دِمَاءَ ہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ إِلَّا بِحَقِّ الْإِسْلَامِ وَحِسَابُہُمْ عَلٰی اللّٰہِ) [ رواہ بخاری : کتاب الایمان، باب فان کان تابوا] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا مجھے لوگوں سے قتال کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور محمد (ﷺ) اللہ کا رسول ہے۔ وہ نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں جو یہ کام کریں گے انہوں نے اپنا خون اور مال مجھ سے بچا لیا سوائے اسلام کے حق کے اور اس کا حساب اللہ پر ہے۔“ (اسلام کے حقوق سے مراد حدود اللہ ہیں )