فَلَمَّا اعْتَزَلَهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ وَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ ۖ وَكُلًّا جَعَلْنَا نَبِيًّا
پس جب ابراہیم ان لوگوں سے کنارہ کش (٢٠) ہوگئے اور ان معبودوں سے بھی جنہیں وہ اللہ کے سوا پوجتے تھے، تو ہم نے انہیں اسحاق اور یعقوب عطا کیا، اور ہر ایک کو ہم نے نبی نبی بنایا۔
فہم القرآن: (آیت 49 سے 50) ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ہجرت اور ان پر اللہ تعالیٰ کا انعام۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) دعائیں کرتے ہوئے عراق کی سرزمین سے رخصت ہوئے۔ یہاں ان کی دو دعاؤں کا ذکر کیا جاتا ہے۔ پہلی دعا یہ تھی کہ میں اپنے رب کی خاطر سب کچھ چھوڑ رہا ہوں وہی ہجرت کے دوران میری رہنمائی فرمائے گا۔ ( الصّٰفٰت :99) دوسری دعا انھوں نے یہ کی کہ میرے رب ! مجھے نیک اولاد عطا فرما۔ اس دعا کے صلہ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو خوشخبری دی گئی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو بیٹا اور پوتا عنایت کرے گا اور دونوں کو نبی بنائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنی بے پناہ رحمت سے نوازا اور ان کے نام اور کام کو شہرت دوام بخشی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ بھی دعا کی تھی۔ میرے رب مجھے حکمت و دانائی اور قوت فیصلہ عطا فرمانے کے ساتھ نیک لوگوں کی رفاقت عنایت فرما۔ میری یہ بھی دعا ہے کہ موت کے بعد میرا تذکرہ دنیا میں خیر کے ساتھ ہوتا رہے۔ (الشعراء : 83، 84) اسی دعا کا صلہ ہے کہ دنیا کے تمام آسمانی مذاہب اور ہر دور کے مذہبی لوگ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا پیشوا مانتے ہیں۔ ان کے ساتھ تعلق کا اظہار کرنا اپنے لیے قابل افتخارسمجھتے ہیں اور ہر کوئی ان کا تذکرہ اچھے الفاظ میں کرتا ہے۔ یہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا تذکرہ شاید اس لیے نہیں کیا گیا کیونکہ ان کا ذکر دو آیات کے بعد آرہا ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) نا صرف حضرت اسحاق سے عمر میں بڑے تھے بلکہ ان کا مرتبہ اور مقام بھی حضرت اسحاق سے بڑا ہے۔