وَلَا تَنكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّىٰ يُؤْمِنَّ ۚ وَلَأَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ ۗ وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُوا ۚ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ ۗ أُولَٰئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ ۖ وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ ۖ وَيُبَيِّنُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ
اور مشرک عورتوں سے جب تک ایمان نہ لائیں، نکاح (310) نہ کرو، اور مومنہ لونڈی آزاد مشرکہ عورت سے بہتر (311) ہوتی ہے، چاہے تمہیں بہت اچھی لگے، اور مشرک مردوں سے اپنی عورتوں کا نکاح (312) نہ کرو، یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں، اور مومن غلام آزاد مشرک سے بہتر ہوتا ہے، چاہے وہ تمہیں بہت اچھا لگے، یہ (مشرکین) جہنم کی طرف بلاتے ہیں، اور اللہ اپنے حکم سے جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے، اور لوگوں کے لیے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کرتا ہے، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں
فہم القرآن : ربط کلام : سورۃ کے مرکزی مضمون سے وابستہ احکام۔ معاشرتی اور عائلی مسائل کے سلسلہ میں اب ایک اہم اور بنیادی مسئلے کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے۔ کیونکہ جوں جوں اسلام پھیل رہا تھا اس کے ساتھ ہی معاشرہ میں نئے نئے مسائل پیدا ہورہے تھے۔ ان میں سے اہم ترین مسئلہ یہ تھا کہ ایک آدمی مسلمان ہوجاتا ہے اور اس کی بیوی کفر و شرک کی حالت پر قائم رہتی ہے۔ اسی طرح اس کے برعکس صورت بھی پیدا ہوسکتی ہے۔ یا دوسری صورت میں ایک مسلمان کو ازدواجی زندگی اپناتے ہوئے کون سے بنیادی اصولوں کا خیال رکھنا چاہیے ؟ اس کے بارے میں بنیادی اصول یہ قرار پایا کہ ” آج کے بعد کوئی مرد کافرہ اور مشرکہ کے ساتھ اور کوئی مومن خاتون کسی کافر اور مشرک کے ساتھ نکاح نہیں کرسکتی۔ چاہے جمال وکمال کے اعتبار سے وہ مرد اور عورت کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں ؟ یہاں تک کہ وہ حلقۂ اسلام میں داخل ہوجائیں۔ ان کے مقابلے میں ایک غلام مسلمان عورت ہو یا مرد کہیں بہتر ہیں۔ حالانکہ معاشرتی طور پر آزاد کے مقابلے میں غلام مرد ہو یا عورت اس کی حیثیت آزاد کے برابر نہیں ہوسکتی۔ خاص کر عرب معاشرے میں غلاموں کی حیثیت ایک زرخرید جانور سے زیادہ نہیں تھی۔ لیکن شرک اور کفر ایسے جرم ہیں جن سے آدمی کی حیثیت حقیقی طور پر ایک غلام سے بھی زیادہ ابتر ہوجاتی ہے۔ اس کے نقصانات دینی اور سماجی اعتبار سے اتنے زیادہ ہیں جن پر کنٹرول کرنا کسی کے بس کا روگ نہیں رہتا۔ کفریہ اور شرکیہ عقیدہ رکھنے والا مردہویاعورت درحقیقت وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا انکار اور اس کے ساتھ شرک کرکے عملًا اس سے بغاوت کا اقرار کرتا ہے۔ کوئی ایمانی غیرت رکھنے والا شخص ایسے باغی کے ساتھ زندگی کابندھن قائم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوسکتا۔ سماجی لحاظ سے وہ ایک ایسی ذہنی کش مکش میں مبتلا ہوتا ہے جس سے چھٹکارا پانا ناممکنات میں سے ہے۔ کیونکہ ایماندار خاوند اپنی اولاد کو ایمان اور جنت کی ہی دعوت دے گا۔ جب کہ اس کی مشرک بیوی اولاد کو اپنے عقیدے کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے گی جو سراسر خدا سے بغاوت اور جہنم کے راستے پرچلنے، چلانے کے مترادف ہے۔ یہی صورت ایک مومنہ بیوی کی مشرک اور کافر خاوند کے ساتھ پیدا ہوگی۔ ایسی صورت میں اولاد، خاندان اور معاشرے پر کس قدر منفی اور باہمی کش مکش کے اثرات مرتب ہوں گے ؟ اگر مسلمانوں کو کفرو شرک کے اختلاط سے منع نہ کیا جائے تو امت کا اپنا تشخص کس طرح قائم ہوسکتا ہے ؟ اس لیے ارشاد ہوتا ہے کہ یہ لوگ تمہیں جہنم کی آگ کی دعوت دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ قانون بنا کر تمہیں اپنی بخشش اور جنت کے راستے کی رہنمائی کی ہے تاکہ ان حقائق کو سامنے رکھ کر تم نصیحت حاصل کرو۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ تُنْکَحُ الْمَرْأَۃُ لِأَرْبَعٍ لِمَالِھَا وَلِحَسَبِھَا وَلِجَمَالِھَا وَلِدِیْنِھَا فَاظْفُرْ بِذَات الدِّیْنِ تَرِبَتْ یَدَاکَ) [ رواہ البخاری : کتاب النکاح، باب الأکفاء فی الدین] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا : عورت سے چار وجوہات کی بنیاد پر شادی کی جاتی ہے۔ مال کی وجہ سے، حسب ونسب کی بناء پر، اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی بنیاد پر۔ پس تم دین دار کو پسند کرو تاکہ تم کامیاب اور تروتازہ رہو۔“ اہل کتاب کے ساتھ نکاح کرنے کا مسئلہ (المائدہ :5) چھٹے پارے میں بیان ہوگا۔ ان شاء اللہ مسائل : 1۔ مشرک مرد اور عورت سے نکاح جائز نہیں۔ 2۔ مومن غلام اور کنیز آزاد مشرک مردوزن سے بہتر ہیں۔ 3۔ مشرک جہنم کی طرف بلانے والے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ اپنی بخشش اور جنت کی دعوت دیتا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کے احکام نصیحت حاصل کرنے کے لیے ہیں۔ تفسیربالقرآن: کن عورتوں سے نکاح جائز نہیں ؟ 1۔ مشرکہ اور کفار عورتوں سے نکاح جائز نہیں۔ (البقرۃ : 221۔ الممتحنۃ :10) 2۔ زانیہ سے نکاح جائز نہیں۔ (النور :3) 3۔ محرمات سے نکاح جائز نہیں۔ (النساء : 23، 24)