إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَٰئِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللَّهِ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
بے شک جو لوگ ایمان (306) لائے، اور اللہ کے لیے اپنا گھر بار چھوڑا اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا، وہی لوگ اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں، اور اللہ بڑا مغفرت کرنے والا اور بڑا مہربان ہے
فہم القرآن : ربط کلام : کفار کی جدّو جہد دین اور مسلمانوں کے خلاف ہے۔ لہٰذا ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ مسلمانوں کی کوشش وکاوش اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے۔ جس کا بدلہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور ہمیشہ کی جنت ہے۔ جس میں انہیں حیات جاوداں نصیب ہوگی۔ بعض لوگ سچے ایمان اور صالح کردار کے بغیر جنت کے وارث بننے کا دعو ٰی کرتے ہیں۔ حالانکہ قرآن کا فرمان ہے کہ جب تک مسلمان مخلص ہو کر اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت کے حصول کے لیے مال و جان کی قربانی پیش نہیں کرو گے۔ اس وقت تک تمہیں اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت نصیب نہیں ہوسکتی۔ اسی نظریہ کی دو ٹوک وضاحت کی جارہی ہے کہ بلا شک جو لوگ خلوص دل کے ساتھ ایمان لائے، عزم واستقامت کا مظاہرہ کیا اور ایمان و ایقان کی خاطر انہیں باغ وبہار‘ کاروبار اور مکان ومقام بھی چھوڑنے پڑے تو وہ بے پروا ہو کر نکل پڑے۔ اللہ تعالیٰ کے دین کی سر بلندی کے لیے میدان جنگ وجدال میں اترنا پڑا تو قربانیوں کی ایسی داستانیں رقم کرتے چلے گئے کہ رہتی دنیا تک ان کی جرأت وبہادری کو شہسوارِجنگ خراج تحسین پیش کرتے رہیں گے۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو اپنے رب کی رحمتوں اور نعمتوں کا حق دار ٹھہرا لیا ہے۔ اگر ان سے بتقاضائے بشریت خطائیں سرزد ہوگئیں تو انہیں پورا یقین رکھنا چاہیے کہ ان کا رب ان کو ضرور معاف کرے گا۔ وہ تو ہمیشہ سے معاف فرمانے والا اور نہایت ہی شفیق ومہربان ہے۔ یاد رہے کہ علمی، مالی، جانی اور ذاتی صلاحیتوں کو اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے وقف کرنے کا نام جہاد ہے۔ تفسیربالقرآن : خدا کی رحمت کے مستحق کون؟ 1۔ رب کریم کی رحمت کے امیدوار اور ان کی صفات۔ (البقرۃ : 218، الاعراف :156) 2۔ گناہ گار کو رحمتِ الٰہی سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ (الزمر :53) 3۔ اللہ کی رحمت محسنین کے قریب ہوا کرتی ہے۔ (الاعراف :56) 4۔ اللہ کی رحمت کی وسعت وکشادگی ہر چیز سے بڑھ کر ہے۔ (المؤمن :7)