قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكَ إِنَّكَ لَن تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا
اس نے کہا (٤٦) میں نے تم سے کہا نہیں تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کرسکتے ہو۔
فہم القرآن: ( آیت 75 سے 77) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جناب خضر (علیہ السلام) کے ہم سفر ہوئے۔ حضرت خضر نے انہیں پہلے سے ہی یہ بات کہہ دی کہ آپ اس شرط پر میرے ہمسفر ہو سکتے ہیں کہ دوران سفر جو کچھ میں کروں آپ کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ ہوا یہ کہ بحری سفر کے دوران خضر (علیہ السلام) نے بیڑے کا ایک تختہ توڑ دیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) چونک اٹھے اور کہا کہ کیا آپ سب کو غرق کرنا چاہتے ہیں۔ جس پر خضر (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اعتراض نہ کرنے کا وعدہ یاد کروایا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ کشتی سے اتر کر جب ان کا گزر ایک بستی کے قریب سے ہوا تو خضر (علیہ السلام) نے ایک نونہال کا اس زور سے گلہ دبوچا جس سے چند لمحوں میں بچے کی جان نکل گئی۔ اللہ کے پیغمبر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس المیہ پر تڑپ اٹھے اور خضر (علیہ السلام) کو یہ کہہ کر ٹوکا کہ آپ نے ناقابل برداشت ظلم کیا ہے۔ آپ نے ایک معصوم بچے کو قتل کر ڈالا ہے اس پر پھر خضر نے موسیٰ ( علیہ السلام) کو وعدہ یاد دلایا کہ آپ نے سفر کے آغاز میں عہد کیا تھا کہ میں آپ کے کسی کام پر اعتراض نہیں کروں گا لیکن آپ نے دوسری دفعہ مجھ سے سوال کر ڈالا ہے اس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ایک دفعہ پھر جانے دیجئے۔ آئندہ آپ کے کسی کام پر اعتراض کروں تو ہماری رفاقت ختم ہوجائے گی کیونکہ آپ کی طرف سے حجّت پوری ہوجائے گی۔ اس اقرار کے بعد جب دونوں بزرگ ایک بستی سے گزرے تو انہوں نے بستی والوں سے کھانا طلب کیا لیکن بستی والوں نے انہیں کھانا کھلانے سے انکار کردیا۔ اس کے باوجود حضرت خضر (علیہ السلام) نے ایک مکان کی گرتی ہوئی دیوار کو مرمّت کیا۔ جس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں توجہ دلائی کہ ہمیں ان سے مزدوری کے عوض کوئی چیز کھانے کے لیے طلب کرنا چاہیے تھی۔ جونہی موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ بات کہی تو خضر (علیہ السلام) بول اٹھے کہ اب ہم اکٹھے سفر نہیں کرسکتے۔ لہٰذا میرے اور آپ کے درمیان علیحدگی ہے، تاہم جو میں نے سفر کے دوران کام کیے ہیں ان کی حقیقت آپ کو بتلائے دیتا ہوں۔ مہمان نوازی کا اجر : (عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِیکَرِبَ ہُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) قَالَ۔۔ وَأَیُّمَا رَجُلٍ ضَافَ قَوْمًا فَلَمْ یَقْرُوہُ فَإِنَّ لَہُ أَنْ یُعْقِبَہُمْ بِمِثْلِ قِرَاہُ )[ رواہ ابوداود : باب النَّہْیِ عَنْ أَکْلِ السِّبَاعِ] ” حضرت مقدام بن معدی کرب سے روایت ہے وہ رسول اللہ (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا۔۔ جو مہمان کسی قوم سے اپنی مہمانی نوازی کا مطالبہ کرے اور وہ اس سے انکاری ہو تو مہمان ان سے اپنی مہمان نوازی کے مطابق لے سکتا ہے۔“ (لِلسَّائِلِ حَقٌّ وَإِنْ جَاءَ عَلٰی فَرَسٍ) [ رواہ أبو داوٗد : کتاب الزکوٰۃ، باب حق السائل ] ” اگر سائل گھوڑے پر سوار ہو کر کسی کے ہاں آکر سوال کرے تو اس کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔“ (عَنْ اَبِیْ شُرَیْحِ الْکَعْبِیِّ ہُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الاْٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ جَآئِزَتُہٗ یَوْمٌ وَّلَیْلَۃٌ وَّالضِّیَافَۃُ ثَلٰثَۃُ اَیّاَمٍ فَمَا بَعْدَ ذٰلِکَ فَھُوَ صَدَقَۃٌ وَّلَا یَحِلُّ لَہٗ اَنْ یَثْوِیَ عِنْدَہٗ حتَیّٰ یُحَرِّجَہٗ) [ رواہ البخاری : باب إِکْرَام الضَّیْفِ وَخِدْمَتِہٖٓ إِیَّاہُ بِنَفْسِہٖ ] ” حضرت ابو شریح کعبی (رض) بیان کرتے ہیں رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔ ایک دن ایک رات خوب اہتمام کرے۔ مہمان نوازی تین دن تک ہے اس کے بعد صدقہ ہے۔ مہمان کے لیے جائز نہیں کہ میزبان کے ہاں بلاوجہ مقیم رہے کہ اسے تنگی میں مبتلا کرے۔“