وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِفَتَاهُ لَا أَبْرَحُ حَتَّىٰ أَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ أَوْ أَمْضِيَ حُقُبًا
اور جب موسیٰ نے اپنے خادم سے کہا (٣٧) کہ میں سفر جاری رکھوں گا یہاں تک کہ دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ پہنچ جاؤں یا مدت دراز تک چلتا رہوں گا۔
فہم القرآن: (آیت 60 سے 63) ربط کلام : نئے خطاب کا آغاز جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کے ذریعہ سے چند کاموں کے حوالے سے تکوینی امور کی حکمتیں بیان کی ہیں۔ تاکہ لوگ ان کو پیش نگاہ رکھ کر اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر صابر، شاکر رہیں بات پر ایمان لائیں۔ اس خطاب میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ایک سفرکی روداد بیان کی ہے۔ جس میں ان کی ملاقات حضرت خضر (علیہ السلام) سے کروائی گئی تاکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کے تکوینی امور کی حکمتوں سے کچھ نہ کچھ آگاہی حاصل ہو۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سفر کا سبب بیان کرتے ہوئے رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا۔ ایک دن موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم سے خطاب کر رہے تھے۔ اچانک مجمع سے ایک آدمی اٹھا اس نے سوال کیا۔ جناب موسیٰ ! کیا دنیا میں آپ سے بڑھ کر کوئی عالم ہے؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ دنیا میں سب سے بڑاعالم میں ہوں حالانکہ انہیں یہ الفاظ کہنے کی بجائے پیغمبرانہ شان کے مطابق اللہ اعلم کے الفاظ کہنے چاہییں تھے۔ اللہ تعالیٰ کو موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ پسندنہ آئے۔ جس بناء پر انہیں حکم ہوا کہ اے موسیٰ ! میرے بندوں میں ایسا بندہ موجود ہے جس کے پاس وہ علم ہے جو آپ کے پاس نہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس بندے سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس بندے کی نشاندھی فرمائی۔ اس سے ملنے کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ سفر اختیار کیا۔ جس کا تذکرہ یہاں کیا گیا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے شاگرد سے فرمایا کہ جب تک ہم دو دریاؤں کے سنگم پر نہ پہنچ جائیں اپنا سفر جاری رکھیں گے بے شک ہمیں برسوں تک چلنا پڑے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ تلی ہوئی مچھلی اپنے پاس رکھو۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے شاگرد یوشع بن نون کے ساتھ سفر کے لیے نکلے راستہ میں انہوں نے دریاؤں کے سنگھم کے پاس قیلولہ کیا۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) استراحت فرما رہے تھے تو یوشع بن نون کے سامنے تلی ہوئی مچھلی زندہ ہو کر دریا میں کود گئی جونہی مچھلی نے دریا میں چھلانگ لگائی تو اس نے دریا میں سرنگ کی طرح راستہ بنالیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے شاگرد یہ واقعہ اور مچھلی بھول گئے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) اٹھے اور بہت آگے نکل گئے تو انہوں نے اپنے شاگرد کو حکم دیا کہ ناشتہ کے لیے مچھلی پیش کی جائے۔ ساتھ یہ بھی فرمایا کہ ہمیں اس سفر نے تھکا دیا ہے تب ان کے شاگرد نے عرض کی۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا ؟ کہ جب ہم ایک چٹان کے پاس آرام کررہے تھے تو مچھلی دریا میں کود گئی اور اس نے عجب طریقے کے ساتھ دریا میں راستہ بنایا یہ واقعہ شیطان نے مجھے فراموش کردیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا یہی تو وہ مقام ہے جس کی تلاش کے لیے ہم نکلے تھے۔[ رواہ البخاری : باب الْخُرُوجِ فِی طَلَبِ الْعِلْمِ ] تفسیر بالقرآن: شیطان کی انسان سے دشمنی : 1۔ مجھے اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا۔ (الکہف :63) 2۔ یقیناً شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔ (الاعراف :22) 3۔ یقیناً شیطان انسان کا واضح دشمن ہے۔ (یوسف :5) 4۔ یقیناً شیطان تمہارا دشمن ہے اسے دشمن ہی سمجھو۔ (فاطر :6) 5۔ یقیناً شیطان انسان کے ساتھ واضح دشمنی کرنے والا ہے۔ (بنی اسرائیل :53) 6۔ شیطان انسان کو رسوا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ (الفرقان :29) 7۔ شیطان لوگوں کے درمیان دشمنی ڈالنا چاہتا ہے۔ (المائدۃ:91) 8۔ شیطان نے آدم اور حوّا کو پھسلا دیا، وہ انسانوں کا کھلا دشمن ہے۔ (الاعراف :32)