وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِي هَٰذَا الْقُرْآنِ لِلنَّاسِ مِن كُلِّ مَثَلٍ ۚ وَكَانَ الْإِنسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا
اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لیے ہر طرح کی مثال (٣١) بیان کردی ہے اور انسان سب سے زیادہ جھگڑا لو ہے۔
فہم القرآن : (آیت 54 سے 55) ربط کلام : لوگوں کو شرک سے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ مختلف انداز سے سمجھاتا ہے۔ لیکن اس کے باجود مشرک لوگ سمجھنے کے لیے تیار نہیں بلکہ جھگڑا کرتے ہیں۔ عقیدہ توحید سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے کئی قسم کی مثالیں بیان فرمائی ہیں۔ تاکہ لوگ شرک کی سنگینی کو سمجھ کر اس سے تائب ہوجائیں لیکن شرک ایسا گناہ ہے۔ جس سے مشرک ناصرف بازآنے کے لیے تیار نہیں ہوتا بلکہ اپنا با طل عقیدہ ثابت کرنے کے لیے جھگڑا کرنے پر اتر آتا ہے حا لانکہ اللہ تعالیٰ انہیں بار با رسمجھاتا ہے کہ ہدایت قبول کرو اور سابقہ گناہوں کی معافی مانگو تمہارا رب معاف کرنے والا ہے۔ لیکن مشرک شرک سے باز آنے کی بجائے بحث وتکرار میں آگے ہی بڑھتا چلا جاتا ہے تاآنکہ پہلے لوگوں کی طرح اسے عذاب آلیتا ہے۔ جس طرح قوم نوح اور دوسری اقوام تباہی کے گھاٹ اترگئیں شرک کی عام طور پر بنیاد کسی زندہ یا فوت شدہ بزرگ کی عقیدت پر ہوتی ہے عقیدت شریعت کی حدود سے تجاوز کر جائے تو انسان حقائق کے بارے میں اندھا ہوجاتا ہے۔ ایسے شخص کو سمجھایا جائے تو حقیقت جاننا تو درکناروہ اس بات کو توجہ سے سننا بھی بزرگوں کی توہین سمجھتا ہے جس بناء پر وہ ناصرف بحث وتکرار کرتا ہے بلکہ جھگڑا کرنے پر اتر آتا ہے۔ جس کے لیے فرمایا گیا ہے کہ انسان بڑا جھگڑالو ہے یہ روش اسے شرک وبدعت سے تائب نہیں ہونے دیتی۔ یہی وطیرہ ہر دور کے مشرک کا ہوا کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ پہلے لوگوں کے طریقہ کو اپنائے ہوئے ہیں۔ جس کا واضح مطلب ہے کہ یہ لوگ اپنے پہلے لوگوں کا انجام دیکھنا چاہتے ہیں جو بالآخر دیکھ لیں گے۔ حالانکہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ کھول کھول کر مثالیں بیان کرتا ہے یہاں دو مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ ﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَہُ إِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَنْ یَخْلُقُوْا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوْا لَہُ وَإِنْ یَسْلُبْہُمُ الذُّبَابُ شَیْءًا لَا یَسْتَنْقِذُوْہُ مِنْہُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ﴾[ الحج :73] ” اے لوگو ! مثال بیان کی جاتی ہے اسے غور سے سنو وہ لوگ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ سب کے سب جمع ہو کر ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے اور اگر مکھی ان کے کھانے میں سے کوئی چیز لے جائے تو وہ واپس نہیں لے سکتے مانگنے والا بھی کمزور اور جس سے مانگا جارہا ہے وہ بھی کمزور۔“ ﴿وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاہُ بِہَا وَلَکِنَّہُ أَخْلَدَ إِلَی الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ ہَوَاہُ فَمَثَلُہُ کَمَثَلِ الْکَلْبِ إِنْ تَحْمِلْ عَلَیْہِ یَلْہَثْ أَوْ تَتْرُکْہُ یَلْہَثْ ذٰلِکَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِآَیَاتِنَا فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ﴾[ الاعراف :176] ” اور اگر ہم چاہتے تو اسے ان کے ذریعے بلند کردیتے مگر وہ زمین کی طرف چمٹ گیا اور اپنی خواہش کے پیچھے لگ گیا۔ اس کی مثال کتے کی طرح ہے کہ اگر آپ اس پر حملہ کریں تو زبان نکالے ہانپتا ہے۔ اسے چھوڑ دیں تو بھی زبان نکالے ہانپتا ہے۔ یہ ان لوگوں کی مثال ہے جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا آپ ان کو آیات سنائیں تاکہ وہ غوروفکر کریں۔“ مسائل: 1۔ قرآن مجید میں ہدایت کے متعلق ہر قسم کے مضامین اور امثال بیان کی گئی ہیں۔ 2۔ اپنے رب کے بارے میں انسان بڑا جھگڑ الو ہے۔ تفسیر بالقرآن: قرآن مجید کا مختلف انداز اور الفاظ میں سمجھانے کا طریقہ : 1۔ ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لیے طرح طرح کی مثالیں بیان کی ہیں۔ (الکھف :54) 2۔ ہم نے اس قرآن میں ہدایت کے متعلقہ تمام باتیں بیان کردیں ہیں۔ (بنی اسرائیل :41) 3۔ دیکھیں ہم کس طرح آیات بیان کرتے ہیں تاکہ لوگ سمجھیں۔ (الانعام :65) 4۔ یقیناً ہم نے قرآن میں تمام باتیں بیان کردیں تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ (بنی اسرائیل :89)