سورة الكهف - آیت 47

وَيَوْمَ نُسَيِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَى الْأَرْضَ بَارِزَةً وَحَشَرْنَاهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ أَحَدًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جس دن ہم پہاڑوں (٢٤) کو چلائیں گے اور آپ زمین کو ظاہر پائیں گے اور ہم سب کو اکٹھا کریں گے، پس ان میں سے ایک کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 47 سے 48) ربط کلام : لوگوں کی حالت کا بیان جب دنیا ختم کرکے جزا سزا کا دن مقرر کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے قیامت کا دن اس لیے مقرر فرمایا ہے کہ اس دن برے لوگوں کو ان کے برے اعمال کی ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے اور نیک لوگوں کو بہترین جزا سے سرفراز کیا جائے۔ اس دن کی ابتداء شدید ترین زلزلوں اور خوفناک دھماکوں سے ہوگی۔ زلزلوں اور دھماکوں سے بالآخر پہاڑ ریت کے ذرات بن کر مٹی کے ساتھ مل جائیں گے۔ زمین کے نشیب وفراز کو ہموار اور چٹیل مید ان میں تبدیل کردیا جائے گا۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو کفار نے رسول محترم (ﷺ) سے سوال کیا کہ لامتناہی اور فلک بوس پہاڑوں کا کیا ہوگا ؟ جس کا یہ جواب دیا گیا کہ اے پیغمبر ! انہیں یہ بتلائیں کہ میر ارب ان پہاڑوں کو اڑا کر ریزہ ریزہ کردے گا۔ زمین کو ہموار اور چٹیل میدان بنادے گا۔ جس میں تم کسی قسم کا گڑھا اور ٹیلہ نہیں دیکھو گے۔ اس دن لوگ ایک آواز دینے والے کی آواز کے پیچھے بے چوں چراں بھاگتے آئیں گے۔ لوگ رب رحمٰن کے سامنے اس قدر عاجزی اور آہستہ آواز کے ساتھ بات کریں گے کہ گنگناہٹ کے سوا کچھ نہیں سنا جائے گا۔ (طٰہٰ: 105تا108) اللہ تعالیٰ لوگوں کو اس طرح اکٹھا کرے گا کہ کوئی ایک شخص بھی اللہ تعالیٰ کے حضور حاضری سے پیچھے نہیں رہے گا۔ لوگ اپنے رب کے حضور سر جھکائے ” رب نفسی رب نفسی“ کی فریاد کرتے ہوئے قطار اندر قطار کھڑے ہوں گے۔ تمام انسان برہنہ جسم کے ساتھ پیش ہوں گے۔ اعلان ہوگا کہ یہ ہے وہ دن جس کے بارے میں منکرخیال کرتے تھے کہ ہم نے انہیں اکٹھا کرنے کا کوئی وعدہ نہیں کیا تھا۔ (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ () یَقُوْلُ یُحْشَرُالنَّا سُ یَوْمَ الْقِیاَمَۃِ حُفَاۃً عُرَاۃً غُرْلًا قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَلرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ جَمِیْعًا یَنْظُرُ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ فَقَالَ یَا عَائِشَۃُ اَلْاَمْرُ اَشَدُّ مِنْ اَنْ یَّنْظُرَ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ) [ رواہ مسلم : باب فَنَاء الدُّنْیَا وَبَیَانِ الْحَشْرِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول معظم (ﷺ) کو فرماتے ہوئے سنا لوگ قیامت کے دن ننگے پاؤں‘ ننگے بدن اور بلا ختنہ اٹھائے جائیں گے میں نے کہا اے اللہ کے رسول کیا مرد اور عورتیں اکٹھے ہوں گے اور وہ ایک دوسرے کی جانب نہیں دیکھیں گے؟ آپ نے فرمایا : اس دن کا معاملہ اس کے برعکس ہوگا کہ کوئی دوسرے کی طرف دیکھے۔“ مسائل: 1۔ قیامت کے دن پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کردیا جائے گا۔ 2۔ قیامت کے دن زمین چٹیل میدان بنا دی جائے گی۔ 3۔ قیامت کے دن سبھی کو اللہ کے حضور جمع کیا جائے گا۔ 4۔ قیامت کے دن لوگ اس طرح آئیں گے جس طرح پہلی با رپیدا کیے گئے تھے۔ تفسیر بالقرآن: قیامت کی کیفیت : 1۔ اس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور زمین چٹیل میدان ہوگی اور ہم تمام لوگوں کو جمع کریں گے اور کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ (الکھف :47) 2۔ اس دن زمین اور پہاڑ کانپنے لگیں گے اور پہاڑ ریت کے ٹیلوں کی طرح ہوجائیں گے۔ (المزمل: 14) 3۔ اس دن آنکھیں چندھیا جائیں گی اور چاند گہنا دیا جائے گا اور سورج چاند کو جمع کردیا جائے گا۔ (القیامۃ: 6تا8) 4۔ جب سورج لپیٹ لیا جائے گا۔ تارے بے نور ہوجائیں گے۔ پہاڑچلائے جائیں گے۔ (التکویر : 1تا3) 5۔ جب آسمان پھٹ جائے گا۔ جب تارے جھڑجائیں گے۔ جب دریا مل جائیں گے۔ جب قبریں اکھیڑ دی جائیں گی۔ (الانفطار : 1تا4) 6۔ اس دن لوگ قبروں سے نکل کر ایسے دوڑیں گے جس طرح شکاری شکار کی طرف دوڑتا ہے۔ (المعارج :43)