وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ أَنزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ فَأَصْبَحَ هَشِيمًا تَذْرُوهُ الرِّيَاحُ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقْتَدِرًا
اور آپ ان کے لیے دنیاوی زندگی (٢٢) کی مثال بیان کردیجئے کہ وہ اس پانی کے مانند ہے جسے ہم آسمان سے نازل کرتے ہیں، پس اس کیو جہ سے زمین کا پودا گھنا ہوجاتا ہے پھر وہ خشک ہو کر بھس بن جاتا ہے جسے ہوا اڑا کرلے جاتی ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
فہم القرآن : (آیت 45 سے 46) ربط کلام : باغ کی تباہی کے بیان کے بعد دنیا کی زندگی کے انجام کا ذکر۔ جس طرح لہلہاتا ہو اباغ اجڑ گیا اسی طرح ہی ایک دن آئے گا کہ جب پوری دنیا اجڑ جائے گی۔ جس طرح کسی فصل اور باغ کے لیے پہلے زمین ہموار اور ساز گار بنائی جاتی ہے۔ پھر اس زمین میں بیج یا پودے لگائے جاتے ہیں یہی اس دنیاکی زندگی کی مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش نازل کرتا ہے جس سے زمین میں ہر قسم کی نباتات اگتی ہیں ان میں گھاس اور ایسی جڑی بوٹیاں ہوتی ہیں جن سے صحر ا، بیابان ہرے بھرے اور شاندار منظر پیش کرتے ہیں ہر طرف ہریالی اور شادابی نظر آتی ہے۔ جونہی ان کا موسم اور مدت پوری ہوجاتی تو گھاس اور جڑی بوٹیاں تنکوں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتیں۔ ہوا کے جھونکے انہیں ادھر سے ادھر اڑائے پھرتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا نتیجہ ہے کہ زمین پہلے صحرا اور بیابان تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر بارش برسائی پھر اس سے سبزہ اگایا اور اس سبزے کو تھوڑی مدّت کے بعد ریزہ ریزہ کردیا یہی انسان کی زندگی کا حال ہے کہ اسے ایک نطفہ سے پیدا فرمایا۔ اس کے بچپن کو جوانی میں بدلا، شادی ہوئی، اللہ تعالیٰ نے اولاد سے نوازا اور دنیا کا مال عنایت فرمایا، انسان کی اولاد نہ ہو تو وہ گھر اجڑا اجڑا محسوس کرتا ہے۔ اگر مال سے تہی دست ہو تو انسان دنیا کی زیب وزینت اور آرام سے محروم رہتا ہے۔ لہٰذا مال اور اولاد انسان کی زندگی کا سہارا اور زینت ہیں مگر حقیقی زینت اور لذّت تبھی حاصل ہوگی۔ جب انسان اولاد کی نیک تربیت کرے اور مال کو اللہ کے راستے میں خرچ کرے۔ جو شخص مال اور اولاد کی نگرانی اور ان کی صحیح طریقہ سے حفاظت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نہ صرف اس کے لیے دنیا کو بہتر بناتا ہے بلکہ اس کی آخرت بھی بہتر بنا دی جاتی ہے اور یہی انسان کی صالح باقیات ہیں۔ جس کا اس کے رب کے ہاں اس کو بہترین صلہ اور روشن مستقبل کی امید دلائی گئی ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) قَالَ إِذَا مَاتَ الإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہُ إِلاَّ مِنْ ثَلاَثَۃٍ إِلاَّ مِنْ صَدَقَۃٍ جَارِیَۃٍ أَوْ عِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِہِ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُو لَہُ) [ رواہ مسلم : باب ما یلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ] ” حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا جب انسان مر جاتا ہے تو تین اعمال کے علاوہ اس کے تمام عمل منقطع ہوجاتے ہیں۔1 صدقہ جاریہ ۔2۔ ایسا علم جس سے نفع حاصل کیا جائے۔ 3۔ نیک اولاد جو بعد میں اس کے لیے دعا کرے۔“ مسائل: 1۔ دنیا کی مثال آسمان سے نازل ہونے والی بارش کی طرح ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ 3۔ مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی زینت ہیں۔ 4۔ نیکیاں ثواب اور اعمال کے لحاظ سے بہت ہی بہتر ہیں۔ تفسیر بالقرآن: دنیا کی حقیقت : 1۔ دنیا کا فائدہ قلیل ہے۔ (النساء :77) 2۔ اللہ کی آیات کے مقابلے میں پوری دنیا حقیر ہے۔ (البقرۃ:174) 3۔ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی کوئی حیثیت نہیں۔ (التوبۃ:38) 4۔ دنیا کی زندگی کھیل کود کے علاوہ کچھ نہیں۔ (العنکبوت :64)