سورة البقرة - آیت 14

وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَىٰ شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جب ایمان والوں سے ان کی ملاقات ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں (28) کہ ہم ایمان لے آئے ہیں، اور جب اپنے شیطانوں کے ساتھ تنہائی میں ہوتے ہیں، تو کہتے ہیں (29) کہ ہم تو تمہارے ساتھ ہیں ہم تو صرف مسلمانوں کا مذاق اڑاتے رہتے ہیں

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : منافقت کے سبب اور حقیقی شعور سے تہی دامن ہونے کی وجہ سے کردار میں کھوکھلہ پن پیدا ہوجاتا ہے۔ جس وجہ سے منافق ایسی گفتگو کرتا ہے۔ منافق جب ایمان داروں سے ملتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور اسلام کی خوبیاں، رسول محترم {ﷺ}کے اوصاف اور مومنوں کے حسن کردار کا ذکر کرتے ہوئے ایمان کے دعویدار بنتے ہیں۔ لیکن جب اپنے لیڈروں کی طرف پلٹتے ہیں تو ان کو تسلی دیتے ہیں کہ ہمارے بارے میں فکر نہ کرنا ہم تمہارے ہی ہیں ہم تو مسلمانوں کے ساتھ شغل اور دکھاوے کے لیے ہم آہنگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہاں قرآن مجید نے ان کے بڑوں کو شیطان قرار دیا ہے کیونکہ ان کے بڑے شیطان کی طرح نہ صرف خود گمراہ ہیں بلکہ دوسروں کو بھی گمراہ کر رہے ہیں۔ منافق اخلاقی لحاظ سے اس قدر سفلہ مزاجی کا شکار ہوتا ہے کہ وہ ایمان جیسے گراں قدر اور حساس معاملے کو بھی مذاق سمجھتا ہے۔ ایسے لوگوں کو ان کے گناہ کی طرف توجہ دلائی جائے تو وہ اپنی خفت مٹانے اور شرمندگی چھپانے کے لیے کہتے ہیں کہ تم تو خواہ مخواہ سنجیدہ ہو رہے ہو ہم تو خوش طبعی کے طور ایسا کر رہے تھے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ {رض}قَالَ قَال النَّبِیُّ {}تَجِدُ مِنْ شَرِّ النَّاسِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عِنْدَ اللَّہِ ذَا الْوَجْہَیْنِ، الَّذِی یَأْتِی ہَؤُلاَءِ بِوَجْہٍ وَہَؤُلاَءِ بِوَجْہٍ) (رواہ البخاری : باب ما قیل فی ذی الوجہین) ” حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا قیامت کے دن اللہ کے نزدیک لوگوں میں سے بدترین شخص دوچہروں والا (منافق) ہوگا۔ جو اس طرف ایک چہرے کے ساتھ آتا ہے اور دوسری طرف دوسرے چہرے سے۔“ مسائل: 1-منافق دوغلی پالیسی اختیار کرتے ہیں۔ 2- بڑے منافق شیطان کے قائم مقام ہوتے ہیں۔ 3- منافق اللہ اور اہل ایمان کو مذاق کرتے ہیں۔