وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ ۖ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ ۚ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا ۚ وَإِن يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاءٍ كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ ۚ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَاءَتْ مُرْتَفَقًا
اور آپ کہہ دیجیے یہ دعوت حق (١٨) تمہارے رب کی جانب سے ہے، پس جو چاہے ایمان لے آئے، اور جو چاہے انکار کردے، بیشک ہم نے ظالموں کے لیے ایک آگ تیار کر رکھی ہے جس کی قناطیں انہیں گھیر لیں گی، اور اگر وہ پانی کے لیے فریاد کریں گے تو ان کی فریاد رسی پگھلے ہوئے تانبے کے مانند پانی سے ہوگی، جو ان کے چہروں کو بھون دے گا، بہت ہی برا پانی ہوگا اور بہت ہی بری رہنے کی جگہ ہوگی۔
فہم القرآن : ربط کلام : جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق پہنچ چکا ہے۔ تو پھر دنیاکی عیش وعشرت کی خاطر حق سے تغافل نہیں کرنا چاہیے۔ حق سے تغافل کرنے والوں کا انجام بدترین ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے حق نازل کرنے اور اس پر ایمان لانے کا حکم دینے کے باوجود حق کو انسان پر مسلط نہیں فرمایا۔ بلکہ اسے اختیار دیا کہ وہ چاہے تو حق پر ایمان لے آئے نہ چاہے تو کفر اختیار کیے رکھے کیونکہ اس کا اصول ہے۔ ﴿لَا إِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ قَدْ تَبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ فَمَنْ یَکْفُرْ بالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْ باللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی لَا انْفِصَامَ لَہَا وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ﴾[ البقرۃ:256] ” دین میں کوئی زبردستی نہیں ہدایت گمراہی سے واضح ہوچکی ہے اس لیے جو شخص باطل معبودوں کا انکار کر کے اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ خوب سننے، جاننے والا ہے۔“ ﴿إِنَّا ہَدَیْنَاہ السَّبِیْلَ إِمَّا شَاکِرًا وَّإِمَّا کَفُوْرًا﴾[ الدھر :3] ” ہم نے (انسان) کو راستہ دکھلادیا خواہ وہ شکر گزار ہوجائے اور خواہ ناشکرا۔“ البتہ کفر اختیار کرنیوالے کو یہ بات ضرور ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کو کفر کاراستہ پسند نہیں ہے جو لوگ کفر اختیار کریں گے وہ ظالم شمار ہوں گے۔ ظالموں کے لیے اللہ تعالیٰ نے جہنم کی آگ تیار کر رکھی ہے جس کی قناتیں اسے گھیرے ہوئے ہوں گی وہ پیاس کے مارے پانی کے لیے فریاد کریں گے لیکن انہیں گرم ترین تیل کی مانندابلتا ہوا پانی دیا جائے گا۔ جس سے ناصرف ان کے ہونٹ زخمی ہوں گے بلکہ ان کے چہرے جھلس کر بدترین شکل اختیار کرلیں گے۔ ان کا کھانا پینا اور رہنا سہنابدترین صورت میں ہوگا۔ قرآن مجید کے دوسرے مقام میں جہنمیوں کو دیئے جانے والے پانی کا ان الفاظ میں ذکر ہو اہے۔ ﴿مِنْ وَرَائِہِ جَہَنَّمُ وَیُسْقٰی مِنْ مَاءٍ صَدِیْدٍ یَتَجَرَّعُہُ وَلَا یَکَادُ یُسِیْغُہُ وَیَأْتِیْہِ الْمَوْتُ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ وَمَا ہُوَ بِمَیِّتٍ وَمِنْ وَرَائِہِ عَذَابٌ غَلِیْظٌ ﴾[ ابراہیم : 16۔17] ” جہنم میں جہنمیوں کو خون اور پیپ سے ملا ہوا مشروب دیا جائے گا۔ جہنمی اس کا ایک گھونٹ لینے کی کوشش کرے گا لیکن وہ پی نہ سکے گا۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق پہنچ چکا ہے۔ 2۔ ایمان کے معاملے میں کسی پر زبر دستی نہیں کی جاسکتی۔ 3۔ ظالموں کے لیے آگ ہے۔ 4۔ ظالموں کو جہنم کی آگ گھیرے ہوئے ہوگی۔ 5۔ جہنمیوں کو پانی کی بجائے پگھلے ہوئے تانبے کا سیال دیا جائے گا۔ 6۔ جہنم بہت ہی بد ترین جگہ ہے۔ تفسیربالقرآن : جہنم میں عذاب کی مختلف شکلیں : 1۔ اس دن ہم ان کا مال جہنم کی آگ میں گرم کریں گے اس کے ساتھ ان کی پیشانیوں، کروٹوں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا۔ (التوبہ :35) 2۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جب وہ ہلکی ہونے لگے گی تو ہم اسے مزید بھڑکا دیں گے۔ (بنی اسرائیل :97) 3۔ تھور کا درخت گنہگاروں کا کھانا ہوگا۔ (الدخان :43) 4۔ اس میں وہ کھولتا ہوا پانی پیئیں گے اور اس طرح پیئیں گے جس طرح پیا سا اونٹ پانی پیتا ہے۔ (الواقعہ : 54تا55) 5۔ ہم نے ظالموں کے لیے آگ تیار کی ہے جو انہیں گھیرے ہوئے ہوگی اور انہیں پانی کی جگہ پگھلا ہو اتانبا دیا جائے گا جو ان کے چہروں کو جلا دے گا۔ (الکھف :29) 6۔ جہنمیوں کے جسم بار بار بدلے جائیں گے تاکہ انہیں پوری پوری سزامل سکے۔ (النساء :56)