وَبِالْحَقِّ أَنزَلْنَاهُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ ۗ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا مُبَشِّرًا وَنَذِيرًا
اور ہم نے اس قرآن کو حق (٦٨) کے ساتھ نازل کیا ہے اور وہ برحق نازل ہوا ہے، اور ہم نے آپ کو صرف اس لیے بھیجا ہے تاکہ آپ لوگوں کو جنت کی خوشخبری دیں اور جہنم سے ڈرائیں۔
فہم القرآن: (آیت 105 سے 106) ربط کلام : بنی اسرائیل کو ان کی عزت رفتہ کا حوالہ دیتے ہوئے آخرت کا خوف دلاکر قرآن مجید کی دعوت، رسول کریم (ﷺ) کی رسالت اور منصب کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل کے آغاز میں معراج کا ذکر فرماکر اہل مکہ کو بین السطور یہ سمجھایا گیا کہ تم جس قد رچاہو رسول اکرم (ﷺ) کی مخالفت کرلو۔ لیکن غور کرو کہ واقعہ معراج میں تمہارے لیے یہ سبق ہے کہ پیغمبر اور اس کی امت کا مستقبل روشن ہے یہ دنیا اور آخرت میں اس قدر ترقی پائیں گے کہ اے نبی کے مخالفو ! تم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اس کے بعد بنی اسرائیل کا ذکر کیا اور بنی اسرئیل کو ان کا ماضی یادد لانے کے بعد مسلسل ایسی ہدایات اور احکام نازل فرمائے۔ جن میں کفار کے ساتھ گاہے بگاہے اہل کتاب کو بھی مخاطب کیا ہے۔ اب سورۃ کا اختتام کرنے سے پہلے کفار اور بنی اسرائیل دونوں کو بیک وقت مخاطب کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ یہ قرآن جو حق کا ترجمان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے حق کے ساتھ نازل کیا ہے یعنی اس کتاب اور اس کے نزول کے کسی مرحلہ میں باطل کی آمیزش کی رتی برابر گنجائش نہیں ہے۔ اے رسول! جو لوگ اس حق کو مانتے ہیں۔ آپ ان کو خوشخبری کا پیغام سنائیں اور جو حق کو نہیں مانتے آپ ان کو ان کے انجام سے ڈرائیں یہی آپ کے منصب کا تقاضا اور آپ کی تبلیغ کا خلاصہ ہے۔ اسی خاطر قرآن مجید کو ہم نے یکبارگی نازل کرنے کی بجائے تھوڑا تھوڑا کر کے نازل فرمایا ہے تاکہ آپ لوگوں کو پڑھ کر سنائیں اور سمجھائیں۔ مسائل: 1۔ قرآن مجید کو حق کے ساتھ نازل کیا گیا۔ 2۔ آپ کو خوشخبری دینے اور ڈرانے کے لیے بھیجا گیا۔ 3۔ قرآن مجیدکو بتدریج نازل کیا گیا۔ 4۔ قرآن مجید کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہیے۔