وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَىٰ تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ ۖ فَاسْأَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ إِذْ جَاءَهُمْ فَقَالَ لَهُ فِرْعَوْنُ إِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا مُوسَىٰ مَسْحُورًا
اور ہم نے موسیٰ کو نو کھلی نشانیاں (٦٥) دی تھیں، تو آپ بنی اسرائیل سے پوچھ لیجیے جب وہ ان کے پاس (اللہ کا پیغام لے کر) آئے تو ان سے فرعون نے کہا اے موسیٰ مجھے یقین ہے کہ تم پر جادو کردیا گیا ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : جس طرح اہل مکہ نے اپنی طاقت اور دولت کے گھمنڈ میں آکر نبی معظم (ﷺ) کی نبوت کا انکار کیا اسی طرح ہی فرعون نے مال واسباب اور اقتدار کے نشے میں آکر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا انکار کیا تھا۔ حالانکہ اس کے سامنے بڑے بڑے معجزات پیش کیے گئے۔ سورۃ مزمل کی آیت : 15میں نبی (ﷺ) کی نبوت کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت سے مماثل قرار دیا ہے۔ اس لیے قرآن میں جابجا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کی کشمکش کا تذکرہ پایا جاتا ہے۔ اس میں ایک طرف نبی کریم (ﷺ) کو تسلی دی گئی ہے اور دوسری طرف اہل مکہ کے انجام کی طرف اشارہ اور مومنوں کو سمجھایا گیا ہے۔ تاکہ ان لوگوں کو حق وباطل کی کشمکش کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ اسی حوالے سے امّتِ مسلمہ بالخصوص کفار کے سامنے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کی کشمکش کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اگر کفار کو اس میں کوئی شک ہے تو انہیں اہل کتاب سے اس بارے میں پوچھ لینا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو نوبڑی بڑی نشانیاں دے کر فرعون کے پاس بھیجافرعون نے اقتدار کے نشے اور مال و اسباب کے گھمنڈ میں آکر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ اے موسیٰ میں سمجھتاہوں کہ تجھ پر جادو ہوگیا ہے۔ یہی بات اہل مکہ نبی محترم (ﷺ) کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ اس پر جادو کردیا ہے۔ جس وجہ سے نہ اسے ہماری مخالفت کی پروا ہے نہ ہی ہماری پیش کشوں کی طرف توجہ دیتا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو دی جانے والی نو نشانیاں : اسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے علامہ ابن کثیر (رض) نے حضرت موسیٰ کو دی جانے والی نشانیوں کے بارے میں یہ الفاظ نقل کیے ہیں۔ ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) مجاھد، عکرمہ، شعبی اور قتادہ کے قول کے مطابق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا کی جانے والی نشانیاں یہ تھیں۔ 1۔ یدِبیضاء، 2۔ عصا، 3۔ قحط سالی، 4۔ پھلوں کی کمی، 5۔ طوفان، 6۔ ٹڈی دل، 7۔ جوئیں کھٹمل، 8۔ مینڈک اور 9۔ خون کے عذاب۔“ [ ابن کثیر]