وَقَالُوا لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ يَنبُوعًا
اور کافروں نے کہا کہ ہم تم پر ہرگز ایمان (٥٨) نہیں لائیں گے، یہاں تک کہ تم زمین سے ہمارے لیے ایک چشمہ نہ جاری کردو۔
فہم القرآن : (آیت 90 سے 93) ربط کلام : قرآن مجید کے بار بار کے چیلنج کے باوجود کفار اس کا جواب نہ دے سکے۔ مگر اس کے باوجود رسول معظم (ﷺ) سے مزید مطالبات کرتے رہے۔ رسول معظم (ﷺ) کی عظیم جدوجہد اور قرآن مجید کے ٹھوس دلائل کی تاب نہ لانے کا نتیجہ تھا کہ کفار اپنی کسی بات پر قائم نہیں رہتے تھے۔ ہر بار پہلے سے بڑھ کر مطالبہ کرتے۔ جب اس کا مثبت اور موثر جواب دیا جاتا تو ہلکان ہونے کی کیفیت میں کوئی اور مطالبہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم ہرگز آپ پر ایمان نہیں لائیں گے۔ جب تک ہمارے یہ مطالبات پورے نہیں ہوتے۔ 1۔ زمین سے ہمارے لیے چشمے جاری کیے جائیں۔ 2۔ آپ کے لیے کجھوروں اور انگوروں کے ایسے باغ ہوں۔ جن کے درمیان نہریں جاری ہوں۔ 3۔ ہم پر آسمان کا ٹکڑا گرا دے۔ 4۔ ملائکہ اور اللہ تعالیٰ کو ہمارے سامنے لایاجائے۔ 5۔ آپ کے لیے سونے کا گھر ہونا چاہیے۔ 6۔ آپ کے آسمان پر چڑھ جانے کے باوجود ہم ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ آپ لکھی ہوئی کتاب لائیں جس کو ہم خود پڑھ سکیں۔ غور فرمائیں یہ کس قدر متضاد اور بے ہودہ مطالبات ہیں۔ جن کا جواب دینے کی بجائے آپ (ﷺ) کو فقط یہی کہنے کا حکم ہوا ہے۔ آپ انہیں فرمائیں میرا رب ہر قسم کی کمزوری سے پاک ہے۔ نہ میں نے ان باتوں کا دعوی کیا ہے اور نہ ہی تمہارے مطالبات میرے منصب کے مطابق ہیں۔ میں تو اپنے رب کا پیغام پہنچانے والاہوں وہ تم تک پہنچا رہا ہوں۔ ﴿سُبْحَانَ رَبِّی﴾ کے الفاظ سے یہ واضح کیا گیا ہے۔ اے کفار ! تمہارے مطالبات پورے کرنا میرے رب کے لیے کوئی مشکل بات نہیں۔ کیونکہ وہ خالقِ کل اور قادر مطلق ہونے کی بناء پر یہ مطالبات کیا ان سے بڑے مطالبات تمہاری آنکھ جھپکنے سے پہلے پورے کرسکتا ہے۔ تم مطالبہ کرتے ہو تمھارے لیے چشمے جاری ہوں، غور کرو کیا اس نے پہاڑوں میں چشمے جاری نہیں کر رکھے ؟ کیا اس نے کھجوروں اور انگوروں کے باغ پیدا فرماکر ان میں چشمے جاری نہیں کیے ؟ جس سے تم ان باغوں کو سیراب کرتے ہو۔ تم اپنے اوپر آسمان کا ٹکڑا گرانے کا مطالبہ کرتے ہو۔ کیا اس نے قوم لوط پر آسمان سے پتھر برساکر ان کوتباہ نہیں کیا تھا؟ کیا قوم لوط پر فرشتے نہیں آئے تھے ؟ جنہوں نے ان کو سحری کے وقت نیست ونابود کردیا تھا۔ کیا تمہارے مطالبہ پر چاند دو ٹکڑے نہیں ہوا ؟ کیا آسمان کا ٹکڑا تم پر گرانا اللہ تعالیٰ کے لیے مشکل ہے ؟ جہاں تک اللہ تعالیٰ کے جلوہ نما ہونے کا تعلق ہے اس کے نور کی ایک جھلک کوہ طور برداشت نہیں کرسکا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ تم بتاؤ کہ اس کا جلال کس طرح برداشت کرسکتے ہو۔ ؟ قیامت کے دن جب اللہ اپنی مخلوق کے سامنے جلالت وتمکنت کے ساتھ جلوہ افروز ہوگا۔ تمہاری کیا مجال کہ آنکھ اٹھا سکو۔ وہاں تو بڑے بڑے انبیاء بھی سر جھکائے ” رَبِّ نَفْسِیْ رَبِّ نَفْسِیْ“ کی فریاد کررہے ہوں گے۔ تمہارا یہ مطالبہ ہے کہ رسول اکرم (ﷺ) کے پاس کھجوروں اور انگوروں کے باغ ہونے چاہییں۔ ذرا غور کرو کہ وسائل کے اعتبار سے غریب نبی کو تم قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہو۔ جب وہ تم سے بڑھ کر امیر ہوگا تو پھر اس پر دنیا دار ہونے کا الزام لگاکر اس کی نبوت کا انکار نہیں کرو گے؟ تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو کیا کیا پیش کش کی اور آپ نے ان سے کس عاجزی کے ساتھ استغناء کا اظہار فرمایا۔ تمہارا یہ مطالبہ آپ آسمان پر چڑھ جائیں اور وہاں سے لکھی ہوئی کتاب لائیں۔ کیا رسول اکرم (ﷺ) مکہ سے مسجد اقصیٰ اور مسجد اقصیٰ سے ساتوں آسمانوں کی سیر کرکے رات کے مختصر حصہ میں واپس آکر آپ کو یہ واقعہ نہیں بتا چکے۔ تم نے اس پر کیا ردعمل دیا ؟ تمہارا یہ مطالبہ کرنا کہ آسمان سے لکھی ہوئی کتاب لائی جائے۔ کیا اس سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) لکھی ہوئی کتاب اپنی قوم کے پاس نہیں لائے تھے اور اس کی قوم نے اس کے ساتھ جو سلوک کیا وہ تمہیں معلوم نہیں؟ مسائل: 1۔ کفارنے آپ (ﷺ) سے مختلف معجزات کا مطالبہ کیا۔ تفسیر بالقرآن: کفار کا انبیاء (علیہ السلام) سے معجزات کا مطالبہ : 1۔ کہنے لگے ہم آپ (ﷺ) پر ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ تو ہمارے لیے زمین سے چشمہ جاری کردے۔ (بنی اسرائیل :90) 2۔ بنی اسرائیل نے موسیٰ سے کہا ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ اللہ کو سامنے دیکھ لیں۔ (البقرۃ:55) 3۔ کہنے لگے ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ ہمیں بھی وہ کچھ دیا جائے جو رسولوں کو دیا گیا ہے۔ (الانعام :124) 4۔ اگر اللہ ہم سے عذاب ٹال دے تو ہم تجھ پر ایمان لے آئیں گے۔ (الاعراف :134)