وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا
اور ہم نے اولاد آدم کو عزت دی ہے اور ان کو بحر و بر میں سفر کے لیے سواری دی ہے اور پاکیزہ چیزیں بطور روزی عطا کی ہے اور اپنی بہت سی مخلوقات پر ان کو فضیلت دی ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : برے لوگوں کا انجام بتانے کے بعد انسان کو اس کا مرتبہ ومقام یاد دلایا گیا ہے۔ کیونکہ انسان کو بحر وبر پر فضیلت دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے دست مبارک کے ساتھ بنایا اور اس میں اپنی روح القاء فرمائی۔ پھر اس کی خلافت کا اعلان فرمایا اور تمام ملائکہ کو اسے سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ ابلیس کے سواحضرت آدم (علیہ السلام) کو تمام ملائکہ نے سجدہ کیا۔ سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے شیطان کو ہمیشہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی بارگاہ سے راندہ درگاہ کرنے کے ساتھ لعنتی قرار دیا۔ ” جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں۔ جب اس کو بنالوں اور اس میں اپنی روح پھونک لوں تو اس کے آگے سجدے میں گرپڑنا۔ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا۔ مگر شیطان اکڑ بیٹھا اور کافروں میں سے ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ابلیس جس شخص کو میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا۔ اس کے آگے سجدہ کرنے سے تجھے کس چیز نے منع کیا۔ کیا تو غرور میں آگیا یا اونچے درجے والوں میں سے تھا؟ بولا کہ میں اس سے بہتر ہوں کیونکہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے بنایا۔ فرمایا یہاں سے نکل جا تو مردود ہے اور تجھ پر قیامت کے دن تک میری لعنت پڑتی رہے گی۔“ (صٓ : 71تا78) پھر آدم (علیہ السلام) کو زمین پر بھیجا اور ہر چیز کو اس کی خدمت کرنے کا حکم دیا۔ جس کے نتیجے میں شمس وقمر، صحراودریا غرضیکہ ہر چیز اس کی نوکری اور چاکری میں لگی ہوئی ہے۔ اسی غلامی کا نتیجہ ہے کہ انسان نے ہوا پر کنٹرول حاصل کیا ہے۔ سینکڑوں من بوجھ اٹھائے ہوائی جہاز فضا میں پرواز کرتے ہوئے مہینوں کا سفر گھنٹوں میں طے کر رہے ہیں۔ سمندروں کے رخ تبدیل کیے جارہے ہیں۔ چاند، ستاروں پر کمندیں ڈالی جا رہی ہیں۔ نہ معلوم آنے والے وقت میں انسان خداداد عقل ودانش سے اس کائنات کو کس کس انداز میں اپنے مطیع کرنے کی کوششیں کرے اور خلیفہ ہونے کی حیثیت سے کیا کیا کرتب دکھائے گا۔ لیکن افسوس جتنا انسان بااختیارہوتا جاتا ہے۔ اتنا ہی اپنے رب کا نافرمان بنتا جا رہے۔ جس کے نتیجہ میں بیماریوں میں مبتلا اور کئی قسم کی مشکلات میں پھنسا جا رہا ہے۔ اگر انسان نے یہی طور طریقے اپنائے رکھے تو آخرت میں ہی نہیں دنیا میں بھی ذلیل ہو کر رہ جائے گا۔ اگر انسان اپنا کھویا ہوا مقام اور اعزاز واپس لینا چاہتا ہے تو اس کا ایک ہی راستہ ہے کہ وہ بلاشرکت غیرے اپنے رب کی غلامی میں آجائے۔ انسان نہ صرف اپنی قدوقامت اور شکل وصورت کے لحاظ سے باقی مخلوق سے اعلیٰ اور بہتر ہے بلکہ یہ خوردو نوش، رہائش اور زیبائش کے اعتبار سے سب سے بہتر اور خوبصورت ہے۔ اب انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے عقیدہ، اخلاق اور کردار کے حوالے سے ثابت کرے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ مرتبہ اور مقام کا اہل ہے۔ مگر انسان کی بد قسمتی ہے کہ اس کی اکثریت نے ہر دور میں اپنے آپ کو نااہل ثابت کیا۔ جس کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے۔ ﴿وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُونِ۔ وَطُوْرِ سِیْنِیْنَ۔ وَہٰذَا الْبَلَدِ الْأَمِیْنِ۔ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِی أَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ۔ ثُمَّ رَدَدْنَاہُ أَسْفَلَ سَافِلِیْنَ۔إِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ فَلَہُمْ أَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ۔ فَمَا یُکَذِّبُکَ بَعْدُ بالدِّیْنِ۔أَلَیْسَ اللَّہُ بِأَحْکَمِ الْحَاکِمِیْنَ ﴾[ التین : 1تا8] ” قسم ہے انجیر اور زیتون کی اور طور سینا اور اس پر امن شہر (مکہ) کی۔ ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا پھر اسے الٹا پھیر کر ہم نے سب نیچوں سے نیچ کردیا۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے کہ ان کے لیے کبھی نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔ پس (اے نبی!) اس کے بعد کون جزا اور سز اکے معاملہ میں تم کو جھٹلا سکتا ہے۔ کیا اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ساری مخلوق پر فضیلت عظمت عطا فرمائی ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بحر وبر پر برتری عنایت فرمائی ہے۔ تفسیربالقرآن : انسان کی پوری مخلوق پر فضیلت وبرتری : 1۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا ہے۔ (ص :75) 2۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خلیفہ بنایا۔ (البقرۃ:30) 3۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو ملائکہ سے سجدہ کروایا۔ (البقرۃ:34) 4۔ سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے ابلیس کو ہمیشہ کے لیے اپنی بارگاہ سے راندہ درگاہ اور لعنتی قرار دیا۔ (الحجر : 34۔35) 5۔ اللہ تعالیٰ نے پوری کائنات کو انسان کے لیے مسخر فرمایا۔ (الجا ثیۃ:13)