سورة الإسراء - آیت 68

أَفَأَمِنتُمْ أَن يَخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ الْبَرِّ أَوْ يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا ثُمَّ لَا تَجِدُوا لَكُمْ وَكِيلًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

کیا تمہیں اس بات سے اطمینان ہوگیا ہے کہ وہ تمہارے ساتھ خشکی کے کنارے کو دھسا دے، یا تم پر پتھروں اور کنکروں والی تند ہوا بھیج دے، پھر تم اپنا کوئی نگہبانی نہ پاؤ۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 68 سے 69) ربط کلام : مشرکین کو پے درپے تین چیلنج دیئے گئے ہیں۔ پہلے مشرکین کی عادت کا ذکر ہوا ہے کہ جب دریائی سفر میں طوفان سے دوچار ہوتے ہیں تو صرف ایک اللہ کو پکارتے ہیں اور اسی کے حضور فریادیں کرتے ہیں۔ اس سے وعدے کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب! اگر تو نے ہمیں اس گرداب سے نکال لیا تو ہم صرف تیرے ہی حضور جھکیں گے اور تجھ ہی سے فریاد کریں گے۔ یقیناتو ہی مشکل کشا ہے تیرے سوا کوئی بھی اس بھنور سے نہیں نکال سکتا مگر جب خشکی پر اترتے ہیں تو فوراً اللہ تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو پے در پے تین چیلنج کیے گئے ہیں کہ یہ لوگ بھول گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں خشکی ہی میں دھنسا دے۔ کیا رب ذوالجلال اس بات پر قادر نہیں ؟ کہ تمہیں دوبارہ ایسے حالات اور گرداب سے دوچار کردے پھرتم اس کے سوا کوئی نہ اپنا مددگار پاؤ گے اور نہ ہی اس کی گرفت پر اس کے خلاف کوئی تعاقب نہیں کرسکتا ہے۔ جس طرح اس نے قارون کو اس کی دولت کے ساتھ زمین میں دھنسا دیا اور قوم لوط کو ان کی بستی سمیت اٹھا کر زمین پر دے مارا اور اوپر سے پتھر برسائے۔ ﴿فَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَہَا سَافِلَہَا وَأَمْطَرْنَا عَلَیْہَا حِجَارَۃً مِنْ سِجِّیْلٍ مَنْضُوْدٍ مُسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّکَ وَمَا ہِیَ مِنَ الظَّالِمِیْنَ بِبَعِیْدٍ ﴾[ ھود : 82، 83] ” پھر جب ہم نے حکم نافذ کیا، ہم نے اس بستی کو اوپر نیچے کردیا اور تابڑ توڑ پکی مٹی کے پتھر برسائے تیرے رب کی طرف سے ہر پتھر پر نشان (نام) لکھا ہوا تھا اور ظالموں سے یہ سزا دور نہیں ہے۔“ قوم مدین کو ایک کڑک نے آلیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے منہ پڑے ہوئے تھے اور ان کے گھر ایسے ویران ہوئے جیسے ان میں کوئی بسا ہی نہ ہو یاد رکھو اہل مدین پر ایسی ہی پھٹکار ہوئی جس طرح قوم ثمود پھٹکاری گئی۔ مفسرین نے لکھا ہے اللہ تعالیٰ نے ان پر سات راتیں آٹھ دن گرمی اور حبس کا ایسا عذاب مسلط کیا کہ وہ نہ تہہ خانوں میں آرام کرسکتے تھے اور نہ ہی کسی درخت کے سائے تلے ٹھہر سکتے تھے وہ انتہائی کرب کے عالم میں اپنے گھروں سے باہر نکلے تو ایک بادل ان کے اوپر سایہ فگن ہوا۔ جب سب کے سب بادل تلے جمع ہوگئے تو بادل سے آگ کے شعلے برسنے لگے اور زمین زلزلہ سے لرزنے لگی پھر ایسی دھماکہ خیز چنگھاڑ گونجی کہ ان کے کلیجے پھٹ گئے اور اوندھے منہ تڑپ تڑپ کر ذلیل ہو کر مرے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ جس طرح چاہے عذاب مسلط کرسکتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی کارساز نہیں ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ دوبارہ بھنور میں مبتلا کرنے پر قادر ہے۔ 4۔ اللہ کے سامنے کوئی دم نہیں مار سکتا۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا کارساز ہے : 1۔ اللہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے، سو تم اس کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز پر کارساز ہے۔ (الانعام :102) 2۔ بے شک آپ ڈرانے والے ہیں اور اللہ ہی ہر چیز پر کارساز ہے۔ (ہود :12) 3۔ اللہ ہر چیز کا پروردگار ہے اور وہ ہر چیز پر کارساز ہے۔ (الزمر :41) 4۔ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اللہ ہی کا ہے اور وہی کارساز کافی ہے۔ (النساء :132) 5۔ میرے بندوں پر شیطان کا داؤ پیچ نہیں چلے گا اللہ اپنے بندوں کے لیے کار ساز ہے۔ (بنی اسرائیل :65) 6۔ وہ مشرق ومغرب کا رب ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں اسی کو کار سازمانو۔ (المزمل :9)