وَإِذْ قُلْنَا لَكَ إِنَّ رَبَّكَ أَحَاطَ بِالنَّاسِ ۚ وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ ۚ وَنُخَوِّفُهُمْ فَمَا يَزِيدُهُمْ إِلَّا طُغْيَانًا كَبِيرًا
اور جب ہم نے آپ سے کہا کہ بیشک آپ کا رب تمام لوگوں کو اپنے گھیرے (٣٩) میں لیے ہوئے ہے اور ہم نے جو مشاہدات (شب معراج میں) آپ کو کرائے انہیں ہم نے لوگوں کے لیے آزمائش کا ذریعہ بنا دیا تھا اور اس (زقوم کے) درخت کو بھی جس پر قرآن میں لعنت بھیجی گئی ہے، اور ہم کفار مکہ کو ڈراتے ہیں لیکن یہ چیز ان کی سرکشی کو بہت زیادہ بڑھا دیتی ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : نیا خطاب۔ اس آیت مبارکہ میں جس خواب کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ کہ ہم نے آپ کو پہلے ہی بتلادیا تھا کہ آپ کا رب لوگوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھلایا ہے وہ لوگوں کے لیے آزمائش ہے۔ اس آیت مبارکہ میں جس خواب کا تذکرہ کیا گیا ہے اس کے بارے میں صحابہ کرام (رض) کی دو آراء ہیں۔ 1۔ صحابہ کرام (رض) کی ایک جماعت کا موقف یہ ہے کہ یہ خواب غزوہ بدر سے پہلے آپ کو دکھلایا گیا کہ آپ (ﷺ) اس معرکہ میں کامیاب ہوں گے اور آپ کا دشمن ناکام ہوگا۔ یہ خواب مشرکین کے لیے کڑی آزمائش ثابت ہوا۔ جسے کفار اور مشرکین نے مذاق کا نشانہ بنایا۔ 2۔ مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس ْکا فرمان ہے۔ یہاں ” رؤیا“ سے مراد آنکھوں سے دیکھنا ہے۔ اس سے مراد نبی (ﷺ) کا معراج ہے۔ آپ (ﷺ) جب معراج سے واپس تشریف لائے تو کفار نے اسے تنقید کا نشانہ بنایا۔ اللہ تعالیٰ نے مسجد اقصیٰ کو نبی (ﷺ) کے سامنے کردیا۔ جو لوگ لفظ رؤیاسے یہ استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نبی (ﷺ) کو جسمانی معراج کی بجائے خواب میں معراج کروایا گیا ہے۔ ان کا نقطہ نظر اس لیے درست نہیں کہ اگر آپ (ﷺ) کفار سے خواب میں مسجد اقصیٰ اور آسمانوں کی سیر کا ذکر کرتے۔ تو اس میں کفار کے لیے کون سی آزمائش اور اعتراض کی بات ہوسکتی تھی۔ کیونکہ خواب میں تو انسان بڑی سے بڑی چیز دیکھنے کا تصور کرسکتا ہے۔ جس طرح معراج کفار کے لیے آزمائش بنایا گیا۔ اسی طرح ہی وہ درخت بھی ان کے لیے آزمائش ثابت ہوا۔ جس کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے۔ ﴿أَذٰلِکَ خَیْرٌ نُزُلًا أَمْ شَجَرَۃُ الزَّقُّومِ۔إِنَّا جَعَلْنَاہَا فِتْنَۃً للظَّالِمِیْنَ إِنَّہَا شَجَرَۃٌ تَخْرُجُ فِی أَصْلِ الْجَحِیْمِ۔ طَلْعُہَا کَأَنَّہُ رُءُ وْسُ الشَّیَاطِیْنِ ﴾[ الصٰفٰت : 63تا65] ” کیا یہ اچھی ہے یا تھور کا درخت ہم نے اسے ظالموں کے لیے آزمائش بنایا ہے۔ وہ ایک ایسا درخت ہے جو جہنم کی تہہ سے نکلتا ہے۔ اس کے خوشے ایسے ہیں جیسے شیطانوں کے سر۔“ کفار نے یہ کہہ کر اس حقیقت کا مذاق اڑایا کہ کبھی آگ میں بھی درخت اگا کرتے ہیں۔ یہ کفار کی جہالت اور ہٹ دھرمی تھی ورنہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں ان کا بھی عقیدہ تھا کہ انہیں آگ میں پھینکا گیا۔ لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) آگ سے صحیح سالم باہر آئے۔ نمرود کی آگ انہیں کوئی گزند نہ پہنچا سکی۔ کفار یہ بھی جانتے تھے کہ عرب کے علاقے میں ایک ایسا بھی درخت ہے جس سے آگ نکلتی ہے۔ لیکن جس تھوہر کے درخت کا قرآن مجید نے ذکر کیا ہے کہ وہ جہنم میں ہوگا۔ یہ کہہ کر اس کا مذاق اڑایا کرتے تھے کہ کبھی آگ میں بھی درخت اگا کرتے ہیں۔ انہیں کیا خبر تھی کہ آنے والے وقت میں سائنس ہمارا مذاق اڑائے گی۔ جس نے یہ ثابت کردیا ہے کہ سمندر کے پانی کے نیچے بھی آگ کے الاؤ بھڑک رہے ہیں۔ جبکہ قرآن نے یہ حقیقت آج سے چودہ سو سال پہلے آشکارا کردی تھی۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ہُرَیْرَۃَ ﴿وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنَاکَ إِلاَّ فِتْنَۃً للنَّاسِ﴾ قَالَ ہِیَ رُؤْیَا عَیْنٍ أُرِیَہَا رَسُول اللَّہِ (ﷺ) لَیْلَۃَ أُسْرِیَ بِہِ ﴿وَالشَّجَرَۃَ الْمَلْعُونَۃَ﴾ شَجَرَۃُ الزَّقُّومِ) [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب ﴿وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنَاکَ إِلاَّ فِتْنَۃً للنَّاسِ ﴾] ” حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے ﴿وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنَاکَ إِلاَّ فِتْنَۃً للنَّاسِ﴾ وہ آنکھ کا خواب ہے جو نبی کریم کو دکھائی گئی۔ اس رات جب آپ کو سیر کرائی گئی اور ﴿وَالشَّجَرَۃَ الْمَلْعُونَۃَ﴾ سے مراد زقوم کا درخت ہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کا ہر طرف سے احاطہ کرنے والا ہے۔ 2۔ بعض چیزیں اللہ تعالیٰ نے آزمائش کے لیے پیدا کی ہیں۔ تفسیر بالقرآن: شجر ملعونہ سے مراد ؟ 1۔ تھوہر کے درخت پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے۔ (بنی اسرائیل :60) 2۔ ہم نے تھوہر کے درخت کو ظالموں کے لیے عذاب بنایا ہے۔ (الصٰفٰت : 62۔63) 3۔ تھوہر کا درخت جہنم کی تہہ سے اگے گا۔ (الصٰفٰت :64) 4۔ یقیناً تھوہر کا درخت مجرموں کا کھانا ہوگا۔ (الدخان :43)