قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِهِ فَلَا يَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنكُمْ وَلَا تَحْوِيلًا
آپ کہہ دیجیے کہ تم ان کو پکارو جنہیں اللہ کے سوا تم نے اپنا معبود (٣٦) سمجھ رکھا ہے، وہ نہ تمہاری تکلیف دور کرنے کی قدرت رکھتے ہیں اور نہ ہی اسے بدل ڈالنے کی۔
فہم القرآن : (آیت 56 سے 57) ربط کلام : اس خطاب کا آغاز آیت 39سے ہوا تھا۔ اس میں رسول اکرم (ﷺ) کو مخاطب کرتے ہوا فرمایا گیا کہ اگر آپ بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو معبود اور حاجت روا، مشکل کشا سمجھیں گے تو آپ کو بھی راندہ درگاہ کرکے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ اس خطاب کا اختتام بھی توحید کے اسی پہلو پر کیا جارہا ہے۔ اے رسول (ﷺ) ! ان لوگوں کو کہیں کہ جن لوگوں کو تم اللہ کے سوا مشکل کشا، حاجت روا سمجھتے ہو۔ ان کو بلاؤ۔ وہ تمہاری تکالیف دور کرنے یا ان کو بدل دینے کا کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے سوا یا اس کے ساتھ اپنی مدد کے لیے پکارتے ہو۔ وہ تو اپنے رب کے ہاں قرب کے متلاشی ہیں۔ کہ کون ان میں سے اپنے رب کا مقرب بندہ ہے اور کون اس کے عذاب سے ڈرنے والا ہے؟ کیونکہ آپ کے رب کا عذاب ڈرنے کے لیے ہے۔ یاد رہے کہ مکہ کے مشرک پتھر، لکڑی اور مٹی کے بتوں کو اللہ تعالیٰ کے ہاں وسیلہ اور حرمت کے طور پر پیش کرتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ انسان کے ہاتھوں کے بنائے ہوئے ہیں۔ مگر ان میں ان بزرگوں کی روح حلول کرگئی ہے۔ جن کی عبادت سے خوش ہو کر اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی خدائی میں سے کچھ اختیارات دے رکھے ہیں۔ اہل مکہ کے عقیدہ کے مقابلے میں یہود و نصاریٰ بتوں کو وسیلہ بنانے کی بجائے انبیاء اور صلحاء کی قبروں کو وسیلہ بنایا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے ” اَلَّذِیْنَ“ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس کے بارے میں تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ ” اَلَّذِیْنَ“ کا لفظ ” ذی روح“ اور ” ذوی العقول“ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یعنی روح اور عقل رکھنے والے۔ ظاہر ہے بت نہیں انسان ہیں۔ اس کا معنیٰ ہوا کہ جن بزرگوں کو اللہ تعالیٰ کے سوا یا اس کے ساتھ مشکل کشا، حاجت روا اور وسیلہ سمجھتے ہو۔ وہ تو خود اللہ تعالیٰ کا قرب چاہتے ہیں۔ ان کی حالت یہ تھی کہ وہ اپنے رب کی رحمت کے طلبگار اور اس کے عذاب سے لرزاں وترساں رہتے تھے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا عذاب ایسی خوفناک چیز ہے جس سے ہر حال میں ڈرنا ہی چاہیے۔ اس آیت مبارکہ میں لفظ ” وسیلہ“ استعمال کیا گیا ہے۔ جس کا اردو میں معنیٰ ” ذریعہ“ ہوتا ہے۔ لیکن عربی میں وسیلہ کا معنیٰ ” قربت چاہنا یا ڈھونڈنا“ ہے۔ بعض لوگ وسیلہ کا معنیٰ ” ذریعہ“ لے کر لوگوں کو شرک کی تبلیغ کرتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی نفی کی ہے۔ وسیلہ کی حقیقت : اردو میں وسیلہ کا معنی ہے ذریعہ اور واسطہ جس سے بے شمار مسلمانوں کو قرآن کے لفظ وسیلہ کے بارے میں غلط فہمی ہوئی ہے جبکہ قرآن مجید میں اس کا معنی اللہ تعالیٰ کا قرب چاہنا ہے۔ ادھر ادھر کے واسطوں کے ذریعے نہیں بلکہ تقوٰی اور نیکی کے کاموں کے ذریعے۔ لہٰذا حکم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کی کوشش کرو۔ حدیث میں وسیلہ کا معنی مقام علیا ہے جس پر فائز ہو کر نبی کریم (ﷺ) قیامت کے دن رب کریم کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہوئے امت کی سفارش کریں گے۔ اس کا تذکرہ اذان کے بعد کی دعا میں موجود ہے۔ آپ نے اسی مقام کے لیے دعا کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ یہ دنیا عالم اسباب ہے اس کا پورا نظام اسباب اور وسائل پر چل رہا ہے جب تک وسائل کو بروئے کار نہیں لایا جائے گا۔ اس وقت تک دنیا کے معاملات صحیح سمت پر چلنے تو درکنار زندگی کا باقی رہنا ناممکن ہے۔ ایک شخص کتنا ہی متوکل علی اللہ کیوں نہ ہوا گر پیاس کے وقت پانی نہیں پیتا اور بھوک کے وقت کھانا نہیں کھاتا تو موت کا لقمہ بن جائے گا۔ بیمار کے لیے پرہیز اور دوائی لازم ہے۔ بغیر اسباب کے کسی چیز کو باقی رکھنا یہ صرف خالق کائنات کی قدرت کا کرشمہ ہے۔ لہٰذا شریعت نے کمزور کے ساتھ تعاون اور بے سہارا کو سہارا دینا اور بے وسیلہ کا وسیلہ بننے کا حکم دیا ہے۔ اس وسیلہ اور اسباب کو اللہ تعالیٰ کی ذات اور اختیارات کے بارے میں دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو کسی وسیلہ اور واسطہ کی ضرورت نہیں وہ مسبب الاسباب اور انسان کی شہ رگ سے زیادہ قریب اور دلوں کی دھڑکنوں کو جاننے والا ہے۔ مدفون بزرگوں کے وسیلہ کی حقیقت : بندے کو اللہ تعالیٰ سے دور رکھنے کے لیے یہ گھٹیا اور سطحی تصور بھی دیا جاتا ہے۔ اس کے لیے اتنی کمزور اور سطحی مثالیں دی جاتی ہیں کہ جس پر آدمی حیرت کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ایسے علماء کا کہنا ہے کہ ڈی سی سے ملنے کے لیے چپڑاسی کی ضرورت ہے مکان کی چھت پر سیڑھی کے بغیر نہیں چڑھا جا سکتا۔ اس باطل عقیدے کو اس شدومد کے ساتھ پھیلایا جا رہا ہے کہ اچھے بھلے پڑھے لکھے حضرات حتیٰ کہ عدالتوں میں بیٹھنے والے جج ہی نہیں چیف جسٹس، قانون کی باریکیوں اور موشگافیوں سے واقف ماہر وکلاء، اندرون اور بیرون ملک یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل سکالر، الجھے ہوئے مسائل: کو سمجھنے اور سمجھانے والے دانشور اس قدراس پروپیگنڈہ سے متاثر ہوئے کہ وہ صحیح بات ماننا تو درکنار اسے ٹھنڈے دل و دماغ سے سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے۔ حالانکہ ذرا غور کیا جائے کہ جس مدفون بزرگ کا وسیلہ تلاش کیا جا رہا ہے اس کی زندگی اور مرنے کے بعد کی حالت میں کتنا فرق ہے؟ 1۔ بزرگ بیمار ہوئے۔ ہزار دعاؤں اور دواؤں کے باوجود صحت حاصل نہ کرسکے۔ 2۔ فوت ہوئے تو گھر میں میت ہونے کے باوجود روتی ہوئی بیٹیوں‘ تڑپتی ہوئی والدہ‘ بلکتی ہوئی بیوی‘ سسکتے ہوئے بیٹے اور آہ وبکا کرنے والے مریدوں کو تسلی نہ دے سکے۔ 3۔ شرم و حیا کے پیکر ہونے کے باوجود انتہائی بیماری اور فوت ہونے کے بعد نہ استنجا کرنے کی سکت ہے اور نہ غسل کرنے کی ہمت۔ 4۔ اپنی زندگی میں خود اپنی قبر بنوانے والے بھی چل کر قبر تک نہ پہنچ سکے۔ 5۔ جو زندگی میں صرف ایک زبان مثال کے طور پر صرف پنجابی زبان جانتے تھے فوت ہونے کے بعد اپنی قبر پر آنے والے سندھی‘ پشتو اور دوسری زبانوں میں فریاد کرنے والوں کی زبانوں سے کس طرح واقف ہوگئے؟ 6۔ جو خوداولاد سے محروم تھے وہ دوسرے کو کس طرح اولاد عطا کرسکتے ہیں؟ 7۔ جو زندگی میں خراٹے لینے والی نیند یا کسی بیماری کی وجہ سے بے ہوشی کے عالم میں دیکھ اور سن نہیں سکتے موت کے بعد کس طرح سننے اور دیکھنے کے قابل ہوئے؟ 8۔ جو زندگی میں دیوار کی دوسری طرف نہیں دیکھ سکتے تھے اب قبر کی منوں مٹی اور مضبوط پتھروں کے درمیان کس طرح دیکھ سکتے ہیں؟ 9۔ جو اپنی حالت سے کسی کو آگاہ نہیں کرسکتے۔ دوسرے کی حالت رب کے حضور کس طرح پیش کرسکتے ہیں؟ توہین آمیز اور مضحکہ خیز مثال : واعظ کا یہ کہنا ہے کہ چھت پر چڑھنے کے لیے سیڑھی کی ضرورت ہے۔ اس حد تک تو اس بات میں کوئی شبہ نہیں مگر غور و فکر کے ساتھ سوچیے چھت تو جامد اور ساکت ہے وہ چڑھنے والے کے قریب نہیں آ سکتی اس لیے سیڑھی کی ضرورت ہے۔ اللہ کی قدرت و سطوت تو ہر جگہ موجود ہے اور وہ سب سے زیادہ انسان کے قریب حتیٰ کے دل اور شہ رگ پر اس کا اختیار ہے یہاں تو کسی وسیلے و سفا رش اور سیڑھی کی ضرورت نہیں۔ وہ انسان کی شہ رگ سے زیادہ قریب اور سینے کے راز جاننے والا ہے۔ خالق کائنات کے لیے یہ مثالیں اور تشبیہ اس کی توہین کے مترادف ہے۔ ﴿فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰہِ الْاَمْثَالَ﴾[ النحل :74] ” اللہ کے لیے ایسی مثالیں بیان نہ کیا کرو“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کے سوا معبودان باطل کسی کی تکلیف دور نہیں کرسکتے۔ 2۔ مشرکین اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے غیر اللہ کو پکارتے ہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ سے رحمت کی امید رکھنی چاہیے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنا چاہیے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ کا عذاب ڈرنے کے لیے ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نفع و نقصان کا مالک نہیں : 1۔ فرما دیجیے جن کو تم معبود تصور کرتے ہو ان کو بلا کردیکھو وہ تمہاری تکلیف دور کرنے پر اختیار رکھتے ہیں؟ (بنی اسرائیل :107) 2۔ اللہ کے سوا ان کو نہ پکارو جو تمہارے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں۔ (یونس :106) 3۔ کیا تم اللہ کے علاوہ ان کی عبادت کرتے ہو جو تمہیں نہ نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان ؟ (الانبیاء :66) 4۔ فرما دیجیے میں اپنے نفع و نقصان کا مالک نہیں مگر جو اللہ چاہے۔ (الاعراف : 188، یونس :49) 5۔ فرما دیجیے کیا تم اللہ کے سوا ان کو دوست بناتے ہو ؟ جو اپنے نفع و نقصان کے مالک نہیں۔ (الرعد :16) 6۔ وہ اپنے آپ کے بھی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے۔ (الفرقان :3) 7۔ کیا ہم اللہ کے سوا انہیں پکاریں جو ہمیں نفع اور نقصان نہیں پہنچا سکتے ؟ (الانعام :71) 8۔ کیا تم اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہو جو تمہارے نفع ونقصان کے مالک نہیں ؟ (المائدۃ:86) 9۔ اللہ کے ہاں کون ایسا ہے جو اللہ کی طرف سے آئے ہوئے نفع ونقصان کو روک سکے۔ (الفتح :11) 10۔ قیامت کے دن تم ایک دوسرے کے نفع ونقصان کے مالک نہیں ہوگے۔ (سبا :42)