سورة الإسراء - آیت 22

لَّا تَجْعَلْ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ فَتَقْعُدَ مَذْمُومًا مَّخْذُولًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو شریک نہ بنایئے ورنہ آپ رسوا اور بے یارو مددگار ہو کر رہ جایئے گا۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : اس خطاب کا آغاز اس سورت کی آیت ٢ سے ہوا۔ جس میں بنی اسرائیل کے حوالے سے تمام انسانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو حاجت روا اور مشکل کشا نہ سمجھیں۔ خطاب کا اختتام بھی اسی بات پر ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو حاجت روا اور مشکل کشا اور عبادت کے لائق نہیں سمجھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا حقیقی نام ” اللہ“ ہے۔ اس نام کا متبادل ” اِلٰہ“ ہے۔ جو متبادل نام ہونے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا اسم صفت بھی ہے۔ یہ نام اللہ تعالیٰ کی اکثر صفات کی ترجمانی کرتا ہے۔ ہر دور کا مشرک اللہ تعالیٰ کو خالق، رازق اور مالک تسلیم کرتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کو بلا شرکت غیرے اِلٰہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اِلٰہ کا معنی ہے ایسی ذات جس کے ساتھ غایت درجے کی محبت کا اظہار کرتے ہوئے اس کی انتہائی عاجزی کے ساتھ عبادت کی جائے اور اس کی عبادت میں کسی اعتبار سے بھی کسی دوسرے کو شریک نہ سمجھا اور نہ بنایا جائے۔ دعا بھی عبادت کی ایک شکل ہے۔ جس میں کسی قسم کا واسطہ، حرمت، طفیل کے الفاظ نہیں بولنے چاہییں۔ سورۃ النمل آیت 62میں ارشاد ہوا ہے کہ بھلا کون ہے ؟ جو مجبور کی دعا قبول کرتے ہوئے اس کی تکلیف دور کرتا ہے اور کون ہے ؟ جو تمہیں زمین پر ایک دوسرے کا جانشین بناتا ہے۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الٰہ ہے ؟ اس حقیقت کے باوجود بہت کم لوگ اس بات پر غور و خوض کرتے ہیں۔ یہاں ” الٰہ“ کا لفظ حاجت روا اور مشکل کشا کے طور پر لایا گیا ہے۔ سورۃ النمل کی آیت 60سے لے کر 63تک اِلٰہ کے مختلف معانی بیان کیے گئے ہیں۔ البقرۃ آیت 163میں دو ٹوک انداز میں ارشاد فرمایا ہے کہ : ” تمہارا ” اِلٰہ“ ایک ہی ” اِلٰہ“ ہے اس کے سوا تمہارا کوئی ” اِلٰہ“ نہیں وہ نہایت مہربان، رحم کرنے والا ہے۔ اس بناء پر یہاں ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو ” اِلٰہ“ نہ بنانا۔ ورنہ تم برے حال اور بےیارو مددگار ہو کر بیٹھے رہ جاؤ گے۔ (عَنْ مُعَاذٍ (رض) قَالَ کُنْتُ رِدْفَ النَّبِیِّ () عَلَی حِمَارٍ یُقَالُ لَہُ عُفَیْرٌ، فَقَالَ یَا مُعَاذُ، ہَلْ تَدْرِی حَقَّ اللّٰہِ عَلَی عِبَادِہِ وَمَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَی اللّٰہِ قُلْتُ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّ حَقَّ اللّٰہِ عَلَی الْعِبَادِ أَنْ یَعْبُدُوہُ وَلاَ یُشْرِکُوا بِہِ شَیْئًا، وَحَقَّ الْعِبَادِ عَلَی اللّٰہِ أَنْ لاَ یُعَذِّبَ مَنْ لاَ یُشْرِکُ بِہِ شَیْئًا فَقُلْتُ یَا رَسُول اللّٰہِ، أَفَلاَ أُبَشِّرُ بِہِ النَّاسَ قَالَ لاَ تُبَشِّرْہُمْ فَیَتَّکِلُوا) [ رواہ البخاری : باب اسْمِ الْفَرَسِ وَالْحِمَارِ] ” حضرت معاذ (رض) فرماتے ہیں میں رسول محترم (ﷺ) کے پیچھے گدھے پر سوار تھا۔ میرے اور آپ کے درمیان صرف پلان کی آخری لکڑی تھی۔ آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا اے معاذ ! تجھے معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے پر کیا حق ہے اور بندوں کے اللہ تعالیٰ پر کیا حقوق ہیں؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول (ﷺ) بہتر جانتے ہیں۔ ارشاد ہوا بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اللہ تعالیٰ پر بندوں کا حق یہ ہے جب تک وہ شرک نہیں کرتے وہ انہیں عذاب سے دوچار نہکرے۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (ﷺ) یہ خوشی کی بات میں لوگوں تک نہ پہنچاؤں؟ فرمایا کہ نہیں اس طرح وہ محنت کرنا چھوڑ دیں گے۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ () قَالَ یَقُول اللَّہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی أَہْوَنِ أَہْلِ النَّارِ عَذَابًا لَوْ کَانَتْ لَکَ الدُّنْیَا وَمَا فیہَا أَکُنْتَ مُفْتَدِیًا بِہَا فَیَقُولُ نَعَمْ فَیَقُولُ قَدْ أَرَدْتُ مِنْکَ أَہْوَنَ مِنْ ہَذَا وَأَنْتَ فِی صُلْبِ اٰدَمَ أَنْ لاَ تُشْرِکَ أَحْسَبُہُ قَالَ وَلاَ أُدْخِلَکَ النَّارَ فَأَبَیْتَ إِلاَّ الشِّرْکَ) [ رواہ مسلم : کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ النار، باب طَلَبِ الْکَافِرِ الْفِدَاءَ بِمِلْءِ الأَرْضِ ذَہَبًا] ” حضرت انس بن مالک (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ جہنمیوں میں سے کم ترین عذاب والے سے کہے گا۔ دنیا اور جو کچھ اس میں تیرے لیے ہے۔ کیا تو اسے فدیہ کے طور پر دینے کے لیے تیار ہے؟ وہ کہے گا جی ہاں! اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے اس سے زیادہ تجھ سے نرمی کی تھی جب کہ تو آدم کی پشت میں تھا کہ میرے ساتھ شرک نہ کرنا، راوی کا خیال ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں تجھے جہنم میں داخل نہیں کروں گا لیکن تو شرک سے باز نہیں آیا۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو معبود نہیں بنانا چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک بنانے والا بدحال اور بےیار و مددگار ہوگا۔ تفسیر بالقرآن: الٰہ کے مختلف معانی : 1۔ اللہ کے ساتھ دوسرا معبود نہ بناؤ ورنہ بدحال بےیارومددگار ہوجاؤ گے۔ (بنی اسرائیل :22) 2۔ تمہارا اِلٰہ ایک ہی ہے اس کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں وہ بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔ (البقرۃ:163) 3۔ اللہ کے سوا کسی اور کو نہ پکارو اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہ عرش عظیم کا مالک ہے۔ (القصص :88) 4۔ اگر یہ اِلٰہ ہوتے تو جہنم میں داخل نہ ہوتے۔ (الانبیاء :99) 5۔ انہوں نے اللہ کے سوا اِلٰہ بنا لیے ہیں جنہوں نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا۔ (الفرقان :3) 6۔ کیا انہوں نے اللہ کے سوا اپنی مدد کے لیے الٰہ بنا لیے ہیں ؟ (یٰس :36)