الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَّعْلُومَاتٌ ۚ فَمَن فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللَّهُ ۗ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَىٰ ۚ وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ
حج کے چند معلوم مہینے (282) ہیں، جس نے ان مہینوں میں اپنے اوپر حج کو فرض کرلیا وہ اثنائے حج جماع اور اس کے متعلقات، گناہ اور جنگ و جدال سے اجتناب کرے، اور تم جو نیکی بھی کرو گے اللہ سے جانتا ہے اور زاد راہ (283) (سفر کا خرچ) لے لیا کرو، بے شک سب سے اچھا زاد راہ سوال سے بچنا ہے، اور اے عقل والو، مجھ سے ڈرتے رہو۔
فہم القرآن : ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے سے حج کے مہینے ایک ہی چلے آرہے تھے۔ جنہیں ہر دور کے ہزاروں‘ لاکھوں اور ان کی وساطت سے نسل درنسل کروڑوں لوگ جانتے ہیں۔ اتنی عظیم الشان اور مسلسل ہونے والی عبادت کے مہینے بتلانے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ البتہ حدیث میں ان کی وضاحت موجود ہے۔ یہ ایام یکم شوال، ذی القعدہ اور ذی الحجہ کی دس تاریخ تک ہیں۔ (قَالَ ابْنُ عُمَرَ (رض) أَشْھُرُ الْحَجِ شَوَّالٌ وَذُو الْقَعْدَۃِ وَعَشْرٌ مِّنْ ذِی الْحَجَّۃِ) [ رواہ البخاری : کتاب الحج، باب قول اللّٰہِ تعالیٰ الحج أشھر معلومات] ” عبدا للہ بن عمر (رض) نے فرمایا : حج کے مہینے شوال، ذو القعدہ اور ذو الحجہ کے دس دن ہیں۔“ اس حدیث میں 10 ذی الحجہ ایام حج قرار دیے گئے۔ اس سے مراد ہے کہ حج 10 ذوالحجہ کے بعد نہیں ہوسکتا۔ حج کرنے والا انہی ایام میں احرام باندھے گا۔ اگر اس سے پہلے وہ حج کا سفر کرے تو احرام نہیں باندھ سکتا۔ البتہ دوردراز علاقے کے رہنے والے لوگ ذرائع آمد ورفت سست رفتار یا کم ہونے کی بنا پر حج کے لیے پہلے بھی سفر کا آغاز کرسکتے ہیں۔ جس طرح آج سے اسّی سال پہلے لوگ پیدل حج کے لیے جایا کرتے تھے۔ طوالت سفر کی وجہ سے وہ شوال سے پہلے ہی اپنے سفر کا آغاز کرتے اس طرح حج کے لیے چھ سے آٹھ ماہ لگ جاتے۔ ایسے حالات میں حج کے مہینوں سے پہلے سفر شروع کیا جاسکتا ہے۔ تاہم ہر شخص احرام یکم شوال سے باندھے گا اور میقات پر پہنچ کر احرام کی پابندیاں شروع ہوں گی۔ عمرہ کے لیے کوئی دن اور مہینہ مقرر نہیں۔ آدمی جب چاہے عمرہ کرسکتا ہے۔ یہاں حج کی فرضیت سے مراد اس کی ادائیگی ہے کیونکہ مفسرین کا اتفاق ہے کہ حج تین ہجری آل عمران کی آیت 97 کے نزول کے وقت فرض ہوا تھا۔ جب کہ یہ آیات چھ ہجری صلح حدیبیہ کے موقع پر نازل ہوئیں۔ اس فرمان میں حج کے آداب بتائے جارہے ہیں کہ حج میں تین کاموں سے سختی کے ساتھ پرہیز کیا جائے۔ اس موقع پر اجتناب اور احتیاط کے باوجود مرد و زن کا ایک ہی وقت اور ایک ہی مقام پر مناسک حج ادا کرنے سے لامحالہ کچھ نہ کچھ اختلاط پید اہوسکتا ہے۔ مختلف ممالک کے متفرق مزاج لوگوں کا جذبۂ شوق کے عالم میں اکٹھا ہو کر نیکی اور خیر کے کام میں ایک دوسرے سے مسابقت کرنے کی وجہ سے مزاج میں تیزی اور مستعدی پیدا ہونا فطری بات ہے جس کی وجہ سے باہم تصادم کے خطرہ کا امکان ہوسکتا ہے۔ اس لیے خصوصی طور پر حکم صادر فرمایا کہ اللہ کے حضور حج کے احکام بجا لاتے ہوئے بیوی سے شہوانی باتیں اور حرکات، فسق وفجور اور جنگ وجدال سے مکمل اجتناب کیا جائے۔ اللہ ! اللہ ! مسلمانوں کی اطاعت شعاری ملاحظہ فرمائیں کہ صدیوں سے یہ اجتماع منعقد ہو رہا ہے۔ جس میں بوڑھے، جوان، شاہ و گدا، کالے، گورے اور مرد و زن موجود ہوتے ہیں۔ سفر کی صعوبتوں اور دیگر مشکلات کے باوجود مسلمان ایسی سنجید گی اور جذبۂ عبادت کے ساتھ فریضۂ حج ادا کرتے ہیں کہ غیر مسلم دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں۔ یہاں یہ بھی حکم ہوا ہے کہ حج کے دوران زاد راہ لے لیا کرو۔ کیونکہ کچھ لوگ خاص کریمن کے رہنے والے اس غرض سے سفر کا خرچ نہیں لیتے تھے کہ ہم اللہ کے گھر میں حاضری دینے جارہے ہیں وہی ہمارے لیے اسباب مہیا کرے گا‘ ہمیں وسائل لینے کی ضرورت نہیں کیونکہ وسائل لینا توکل اور تقو ٰی کے خلاف ہے۔ اس پر حکم ہوا کہ ادھر ادھر سے مانگنے اور جھانکنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ وسائل کو بروئے کار لاؤ۔ دوسرے کی طرف جھانکنے سے بہتر ہے کہ زاد راہ ساتھ لیاجائے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے پرہیز کرنا اور گناہوں سے بچنا ہی تقو ٰی ہے۔ یہی عقل مندی کا تقاضا اور صاحب دانش لوگوں کا وطیرہ ہونا چاہیے۔ انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا : اے اللہ کے رسول (ﷺ) ! (أَعْقِلُھَا وَأَتَوَکَّلُ أَوْ أُطْلِقُھَا وَأَتَوَکَّلُ قَالَ اعْقِلْھَا وَتَوَکَّلْ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق] ” میں اونٹ کو باندھ کر توکل کروں یا اسے چھوڑ دوں اور توکل کروں آپ (ﷺ) نے فرمایا : اونٹ کو باندھو اور توکل کرو۔“ مسائل : 1۔ شوال، ذی قعدہ، اور دس ذی الحجہ تک حج کے مہینے اور ایام ہیں۔ 2۔ حج میں بیوی سے شہوانی باتیں‘ فسق و فجور اور لوگوں سے جھگڑا نہیں کرنا چاہیے۔ 3۔ حج کے لیے زاد راہ لینا ضروری ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرنا ہی دانشمندی ہے۔ تفسیر بالقرآن: تقوی اور اسکے فائدے: 1۔ متقین کے لیے کامیابی ہے۔ (الانبیاء: 31 تا 33) (یونس: 26، 27) 2۔ متقین کا بہترین انجام ہے۔ (ہود: 49) 3۔ متقین کے لیے جنت ہے۔ (الحجر: 45) (القلم: 34) (الطلاق: 4 تا 5) 4۔ اللہ تعالی نے متقین کا ساتھ جنت کا وعدہ فرمایا ہےاور کافروں کا انجام دوزخ کی آگ ہے۔ (الرعد: 35)