سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ
(تمام عیوب و نقائص) سے پاک (١) ہے وہ جو اپنے بندے (محمد) کو رات کے وقت مسجد حرام سے اس مسجد اقصی تک لے گیا جس کے گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں، تاکہ ہم انہیں اپنی نشانیاں دکھائیں، بیشک وہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : نئے خطاب کا آغاز : اس سورۃ میں بنی اسرائیل کو متنبہ کیا ہے کہ اب تمھارا دور ختم ہوا۔ معراج کے دو حصے ہیں : پہلے حصے کو اسراء اور دوسرے کو معراج کہا جاتا ہے لیکن عرف عام میں دونوں ہی کو معراج کہا جاتا ہے۔” پاک ہے وہ ذات جو رات کے ایک مختصر حصّہ میں اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی۔ جس کے ارد گرد ہم نے برکت رکھی ہے تاکہ ہم اسے اپنی قدرت کے کچھ نمونے دیکھائیں۔“ مسجد حرام (خانہ کعبہ) مکہ میں ہے اور مسجد اقصیٰ فلسطین کے شہر ” القدس“ میں ہے۔ جس کا پرانا نام یروشلم اور ایلیا ہے۔ اس وقت مکہ سے القدس تک کی مسافت چالیس دن میں طے ہوتی تھی۔ لیکن معراج کی رات چالیس دن کی مسافت رات کے ایک مختصر حصہ میں طے ہوگئی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس کا آغاز لفظِ ” سبحان“ سے کیا ہے۔ جس کا معنی ہے ” اللہ ہر نقص اور کمزوری سے پاک ہے۔“ لفظ سبحان کا استعمال ایسے موقعوں پر ہوتا ہے جب کسی عظیم الشان واقعے کا ذکر ہو۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے نزدیک ظاہری اسباب کے اعتبار سے یہ واقعہ کتنا ہی محال ہو لیکن اللہ کے لیے کوئی مشکل نہیں۔ کیونکہ وہ اسباب کا پابند نہیں۔ لفظِ ” کُنْ“ کہنے کی دیر ہے جو چاہتا ہے پلک جھپکنے سے پہلے ہوجاتا ہے۔ اسباب انسانوں کے لیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مسبب الاسباب ہے۔ لہٰذا اسباب اس کے محتاج اور پابند ہیں۔ وہ اسباب کی پابندیوں اور کمزوریوں سے پاک ہے۔ حضرت مالک بن صعصعہ (رض) کی روایت کو ہم بامحاورہ بیان کرتے ہیں۔ تفصیل کے لیے حدیث کی کتب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ” اللہ کے نبی (ﷺ) نے انہیں اس رات کے متعلق بتلایا جس میں آپ (ﷺ) کو معراج کرائی گئی۔ آپ نے فرمایا : ” میں ایک رات حطیم میں سویا ہوا تھا۔ ایک آنے والا میرے پاس آیا اور اس نے میرا پیٹ سینے سے ناف تک چاک کیا اور میرا دل باہر نکالا، پھر میرے قریب سونے کا ایک طشت لایا گیا جو ایمان وحکمت سے بھرا ہوا تھا۔ اس میں میرے دل کو دھویا گیا اور اسے ایمان وحکمت سے بھر کر اپنی جگہ رکھ دیا گیا۔ پھر ایک سفید جانور لایا گیا جو خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا۔ وہ اپنا قدم وہاں رکھتا جہاں اس کی نگاہ کی آخری حد ہوتی۔ مجھے اس پر سوار کرا دیا گیا اور جبریل مجھے اپنے ساتھ لے چلے یہاں تک کہ آسمان دنیا پر پہنچ گئے۔ جبریل نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا، پوچھا گیا : کون ہے؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے بتایا کہ میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا : تمہارے ساتھ کون ہے؟ جبریل نے بتلایا : محمد (ﷺ) ہیں پوچھا گیا : کیا انہیں بلوایا گیا ہے ؟ جبریل نے کہا ہاں ! کہا گیا : انہیں خوش آمدید ! کیا ہی مبارک آنے والے ہیں۔ دربان نے دروازہ کھول دیا۔ جب میں نے آسمان پر قدم رکھا تو دیکھا وہاں حضرت آدم (علیہ السلام) تشریف فرما ہیں۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا : یہ آپ کے باپ آدم ہیں، انہیں سلام کریں۔ میں نے انہیں سلام کیا۔ انہوں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے فرمایا : نیک بیٹے اور صالح پیغمبر کو خوش آمدید، پھر جبریل (علیہ السلام) مجھے لے کر دوسرے آسمان پر چڑھے اور اس کا دروازہ کھولنے کو کہا۔ پوچھا گیا : کون ہے؟ کہا : میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا : تمہارے ساتھ کون ہے؟ کہا : محمد (ﷺ) ہیں۔ پوچھا گیا : کیا انہیں بلوایا گیا ہے؟ جبریل نے کہا : ہاں! کہا گیا : خوش آمدید! جو آیا ہے کتنا اچھا ہے؟ دروازہ کھول دیا گیا۔ جب میں اندر داخل ہوا تو وہاں حضرت یحییٰ اور عیسیٰ (علیہ السلام) تھے جو دونوں خالہ زاد ہیں۔ جبریل نے کہا : یہ یحییٰ اور عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں انہیں سلام کریں۔ میں نے انہیں سلام کیا۔ ان دونوں نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا : صالح بھائی اور پیغمبر کو خوش آمدید۔ پھر جبریل مجھے تیسرے آسمان پر لے کر چڑھے اور دروازہ کھولنے کو کہا۔ پوچھا گیا : کون ہے؟ کہا : میں جبریل ہوں۔ کہا گیا : تمہارے ساتھ کون ہیں؟ کہا : محمد (ﷺ) ہیں۔ پوچھا گیا : کیا انہیں بلوایا گیا ہے؟ جبریل نے کہا : ہاں! انہوں نے خوش آمدید کہتے ہوئے کہا جو آیا ہے کتنا اچھامہمان ہے؟ دروازہ کھول دیا گیا۔ جب میں وہاں پہنچا تو وہاں یوسف (علیہ السلام) تھے جبریل نے کہا : یہ یوسف ہیں انہیں سلام کریں۔ میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے جواب دیا : صالح بھائی اور پیغمبر کو خوش آمدید۔ پھر جبریل مجھے چوتھے آسمان پر لے کر چڑھے۔ دروازہ کھولنے کو کہا۔ پوچھا گیا کون ہے؟ کہا : میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا : تمہارے ساتھ کون ہے کہا : محمد (ﷺ) ہیں کہا گیا کیا انہیں بلوایا گیا ہے ؟ جبریل نے کہا : ہاں کہا گیا : خوش آمدید پس آنے والا جو آیا ہے کتنا ہی اچھا ہے؟ دروازہ کھول دیا گیا۔ جب میں اندر داخل ہوا تو وہاں ادریس (علیہ السلام) تھے جبریل نے کہا : یہ ادریس (علیہ السلام) ہیں انہیں سلام کریں۔ میں نے انہیں سلام کیا۔ انہوں نے سلام کا جواب دیا اور کہا : صالح بھائی اور پیغمبر کو خوش آمدید۔ پھر جبریل مجھے پانچویں آسمان پر لے کر چڑھے۔ انہوں نے دروازہ کھولنے کو کہا۔ کہا گیا : کون ہے؟ کہا میں جبریل ہوں پوچھا گیا : تمہارے ساتھ کون ہے؟ کہا : محمد (ﷺ) ہیں۔ پوچھا گیا : انہیں بلوایا گیا ہے؟ جبریل نے کہا : ہاں! کہا گیا : خوش آمدید جو آیا ہے کتنا اچھا ہے؟ جب میں اندر داخل ہوا تو وہاں ہارون (علیہ السلام) تھے جبریل نے کہا : یہ ہارون ہیں۔ انہیں سلام کریں۔ میں نے انہیں سلام کیا۔ انہوں نے سلام کا جواب دیا اور کہا : صالح بھائی اور پیغمبر کو خوش آمدید۔ پھر جبریل مجھے چھٹے آسمان پرلے کر چڑھے۔ تب انہوں نے دروازہ کھولنے کو کہا۔ پوچھا گیا : کون ہے؟ کہا میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا : تمہارے ساتھ کون ہے ؟ کہا : محمد (ﷺ) ہیں کہا گیا : کیا انہیں بلوایا گیا ہے ؟ جبریل نے کہا : ہاں! کہا : خوش آمدید ! جو آیا ہے کتنا ہی اچھا ہے؟ جب میں اندر داخل ہوا تو وہاں موسیٰ (علیہ السلام) تھے جبریل نے کہا : یہ موسیٰ (علیہ السلام) ہیں انہیں سلام کریں میں نے انہیں سلام کیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے سلام کا جواب دیا اور کہا : صالح بھائی اور پیغمبر کو خوش آمدید۔ جب میں وہاں سے آگے چلا تو موسیٰ (علیہ السلام) روپڑے۔ پوچھا گیا : آپ کیوں روتے ہیں؟ انہوں نے کہا : میں اس لیے روتاہوں کہ یہ جوان جو میرے بعد نبی بنا کر بھیجا گیا، اس کی امت کے لوگ میری امت سے زیادہ تعداد میں جنت میں جائیں گے۔ پھر جبریل مجھے لے کر ساتویں آسمان پر چڑھے اور انہوں نے دروازہ کھولنے کو کہا، پوچھا گیا : کون ہے؟ کہا : میں جبریل ہوں۔ کہا گیا : تمہارے ساتھ کون ہے؟ جبریل نے کہا : محمد (ﷺ) ہیں کہا گیا : کیا ان کی طرف یہاں آنے کا پیغام بھیجا گیا تھا؟ کہا : ہاں! کہا : خوش آمدید کتنا اچھا ہے جو آیا ہے۔ جب میں اندر داخل ہوا تو وہاں ابراہیم (علیہ السلام) تھے۔ جبریل نے کہا : یہ آپ کے باپ ہیں انہیں سلام کریں۔ میں نے انہیں سلام کیا۔ انہوں نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا : صالح بیٹے اور پیغمبر کو خوش آمدید۔ پھر مجھے سدرۃ المنتہیٰ کی طرف لے جایا گیا۔ اس کا پھل (بیر) ہجر ” شہر“ کے مٹکوں جتنا تھا۔ اس کے پتے ہاتھی کے کانوں جیسے تھے۔ جبریل نے کہا : یہ سدرۃ المنتہیٰ ہے۔ وہاں چار نہریں تھیں، دونہریں جنت کے اندر اور دونہریں باہرہیں۔ میں نے پوچھا : اے جبریل ! یہ دونہریں کونسی ہیں؟ جبریل نے کہا : دواندروالی ہیں وہ جنت میں اور جو دو نہریں ظاہر ہیں وہ نیل اور فرات ہیں۔ پھر میرے لیے بیت المعمور بلند کیا گیا، یہاں میرے لیے تین برتن لائے گئے ایک شراب کا دوسرا دودھ کا تیسرا شہد کا تھا۔ میں نے ان میں سے دودھ کا پیالہ لے لیا۔ جبریل نے فرمایا : یہ فطرت ہے جس پر آپ اور آپ کی امت ہے۔ پھر مجھ پر رات اور دن میں پچاس نمازیں فرض کردی گئیں۔ جب میں واپس لوٹا اور دوبارہ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس سے گزرا تو انہوں نے پوچھا : آپ کو کیا حکم دیا گیا ہے؟ میں نے کہا : مجھے ہر روز پچاس نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا : آپ کی امت روزانہ پچاس نمازیں نہیں پڑھ سکے گی۔ اللہ کی قسم ! میں آپ سے پہلے لوگوں کا تجربہ کرچکا ہوں۔ بنی اسرائیل کو خوب اچھی طرح آزما چکا ہوں۔ پس آپ اپنے رب کی طرف جائیں اور اس سے اپنی امت کے لیے تخفیف کا سوال کریں۔ میں دوبارہ واپس گیا تو اللہ نے میرے لیے دس نمازیں کم کردیں۔ میں جب موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا تو انہوں نے پھر پہلی والی باتیں کیں۔ میں پھر واپس گیا تو اللہ نے دس نمازیں کم کردیں۔ میں پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس گیا تو انہوں نے پھر وہی باتیں کیں۔ میں پھر واپس گیا تو میرے لیے پھر دس نمازیں کم کردیں۔ میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا تو انہوں نے پھر وہی باتیں کیں۔ میں پھر واپس گیا تو میرے لیے دس نمازیں کم کردیں گئیں۔ میں پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا تو انہوں نے مجھے پھر واپس بھیجا۔ میں واپس گیا تو میرے لیے پانچ نمازیں معاف کردیں۔ میں پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس سے گزرا تو انہوں نے پھر واپس جانے کا مشورہ دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ کی امت روزانہ پانچ نمازیں بھی نہیں پڑھے گی۔ میں آپ سے پہلے لوگوں کا تجربہ کرچکا ہوں اور میں بنی اسرائیل کو خوب آزما چکاہوں۔ آپ (ﷺ) پھر اپنے رب کے پاس جائیں اور اس سے اپنی امت کے لیے مزید تخفیف کا سوال کریں۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا : میں باربار اپنے رب سے سوال کرچکاہوں اب مجھے شرم آرہی ہے۔ اب میں اسی پر راضی ہوں اور اسے ہی تسلیم کرتاہوں۔ آپ نے فرمایا : جب میں کچھ آگے گیا تو ایک منادی کرنے والے نے بلند آوازسے کہا : میں نے اپنا فریضہ جاری کردیا اور اپنے بندوں پر تخفیف کردی ہے۔“ معراج النبی (ﷺ) کے عظیم مشاہدات : ٭شق صدر کے بعد نبی (ﷺ) کے قلب اطہر کا نکالنا اور پھر اسے دھو کر دوبارہ اپنے مقام پر رکھ دینا یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی عظیم نشانی ہے کیونکہ اس دور میں طب اور میڈیکل سائنس کی وہ ترقی نہیں تھی جو آج کل عام ہے۔ اس دور میں دل کا اپنے مقام سے باہر نکال لینا موت کے مترادف تھا لیکن نبی (ﷺ) کو کچھ نہیں ہوا۔ ٭اللہ تعالیٰ کی طرف سے براق جیسی برق رفتار سواری کا انتظام کرنا جس نے ڈیڑھ مہینے کا سفر رات کے ایک نہایت قلیل حصے میں طے کر ادیا۔ ٭سیڑھی کے ذریعے سے نبی (ﷺ) کو آسمانوں پر لے جانا۔ یہ بے مثال اور عظیم الشان لفٹ تھی جو آسمانوں پرچڑ ھنے کے لیے آپ کو مہیا کی گئی۔ یاد رہے معراج کا معنیٰ سیڑھی ہے۔ ٭بیت المقدس میں تمام انبیاء ( علیہ السلام) کا جمع ہونا اور نبی (ﷺ) کی اقتداء میں نماز پڑھنا ہے۔ آپ کا امام الانبیاء کا اعزاز پانا۔ ٭آسمانوں پر جلیل القدر انبیاء ( علیہ السلام) سے ملاقاتوں کا خصوصی اہتمام بھی نبی (ﷺ) کی امتیازی شان کا اظہار اور عظیم زیارات ہیں۔ ٭سدرۃ المنتہیٰ کا مشاہدہ جو مقام انتہاء ہے۔ اس سے اوپر کی چیزیں جنہیں نیچے اترنا ہوتا ہے ان کا نزول پہلے یہاں ہوتا ہے : فرشتے اسے یہاں سے وصول کرکے اس کے مطابق کاروائی کرتے ہیں۔ زمین سے آسمانوں کو جانے والی چیزیں بھی یہاں ٹھہر جاتی ہیں۔ اس کے بعد ان کو جہاں لے جانا ہوتا ہے، لے جایا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ بہت ہی اہم مقام اور نہایت اہم مرکز ہے۔ علاوہ ازیں یہ مرکز تجلیات الٰہی بھی ہے۔ اس کے گرد سونے کے پروانے محو پرواز رہتے ہیں۔ اس کے حسن وجمال اور رعنائی کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اسی کے پاس جنت الماویٰ ہے۔ اسی جگہ پرنبی (ﷺ) نے قلموں کے چلنے کی آوازیں سنی تھیں۔ جس کا مطلب ہے کہ فرشتے لوح محفوظ سے قضاوقدر کے فیصلے نوٹ کرتے ہیں اسی مقام پر نبی (ﷺ) کو وہ چیزیں ملیں جو شب معراج کے خاص تحفے ہیں۔ اسی جگہ پر نبی (ﷺ) نے حضرت جبریل (علیہ السلام) کو دوسری مرتبہ ان کی اصلی صورت میں دیکھا یہاں چار نہریں بھی دیکھیں جن کے سوتے اسی مقام پر ہیں۔ گویا سدرۃ المنتہیٰ بہت سے مشاہدات کا مجموعہ اور عجائبات آسمانی کا مظہر ہے۔ ٭ساتویں آسمان پر بیت المعمور دیکھا جو فرشتوں کی عبادت گاہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی نورانی مخلوق کی عظمت وکثرت کا مشاہدہ ہوا کہ روزانہ ستر ہزار فرشتے اس میں عبادت کے لیے آتے ہیں جنکی قیامت تک دوبارہ باری نہیں آئے گی۔ ٭جہنم کا داروغہ جس کا نام مالک ہے، دجّال جس کا خروج قیامت کے قریب ہوگا ان دونوں کا مشاہدہ بھی اسی رات نشانیوں کے طور پر کرایا گیا۔ (ثُمَّ أُدْخِلْتُ الْجَنَّۃَ فَإِذَا فیہَا جَنَابِذُ اللُّؤْلُؤِ وَإِذَا تُرَابُہَا الْمِسْکُ)[ رواہ مسلم : کتاب الایمان] ” پھر مجھے جنت میں لے جایا گیا۔ میں نے وہاں دیکھا کہ موتیوں کے خیمے ہیں اور اس کی مٹی کستوری ہے۔“ (أَتَیْتُ عَلَی نَہَرٍ حَافَتَاہُ قِبَاب اللُّؤْلُؤِ مُجَوَّفًا فَقُلْتُ مَا ہَذَا یَا جِبْرِیلُ قَالَ ہَذَا الْکَوْثَرُ) [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر باب تفسیر سورۃ الکوثر] ” میں ایک نہر پر آیا اس کے دونوں کنارے موتیوں کے قبوں کے تھے، میں نے پوچھا، جبریل یہ کیا ہے؟ جبریل نے کہا یہ کو ثر ہے۔“ مسجد اقصٰی کا تعارف اور فضیلت : مسجد اقصیٰ کرۂ ارض پر مسلمانوں کا تیسرا مقدس مقام ہے۔ یہ تاریخی شہر میں واقع ہے اس کو احادیث اور تاریخ میں ’ بیت المقدس‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، بائبل میں یہ شہر ’ یروشلم اور ایلیا‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مسجد اقصیٰ قدیمی شہر کے جنوب مشرقی طرف ایک نہایت وسیع رقبے پر مشتمل ہے۔ اس کے احاطے کے گرد ایک مستطیل شکل کی پر شکوہ فصیل ہے۔ مسجد کے احاطہ کی وسعت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ اس کا رقبہ 114دونم ( ایک میٹر 1000میٹر مربع کے برابر ہے) ہے۔ مسجد اقصیٰ شہر کے جس حصہ میں واقع ہے وہ ایک ٹیلہ نما جگہ ہے۔ اس ٹیلہ کا تاریخی نام ’ موریا‘ ہے۔ صخرہ مشرفہ وہ چٹان ہے جہاں اسراء معراج کی رات رسول اللہ (ﷺ) کے قدم مبارک لگے تھے اور آپ نے براق باندھا تھا۔ مسجد کی پیمائش یوں ہے : جنوب کی طرف 281میٹر، شمال کی طرف 310میٹر، مشرق کی طرف ٤٦٢ میٹر اور مغرب کی جانب 491میٹر۔ مسجد اقصیٰ کا یہ احاطہ قدیمی شہر کا چھٹا حصہ بنتا ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس مسجد کی حدود آج بھی وہی ہیں جہاں جائے نماز کے طور پر پہلے دن اس کی تعمیر ہوئی تھی۔ احاطہ کے چودہ دروازے ہیں۔ صلاح الدین ایوبی (رض) نے جس وقت یہ مسجد آزاد کروائی، اس کے بعد بعض وجوہات کے پیش نظر مسجد کے کچھ دروازے بند کردیئے گئے۔ وہ دروازے جو اس وقت تک برقرار ہیں، دس ہیں۔ مسجد اقصیٰ کے چار مینار ہیں۔ باب المغاربہ والا مینار، جو کہ جنوب مغربی جانب ہے۔ باب السلسہ والا مینار جو کہ مغربی سمت باب السلسہ کے قریب واقع ہے۔ باب الغونمہ والا مینار جو کہ شمال مغربی سمت اور باب الاسباط والا مینار جو کہ شمالی سمت واقع ہے۔ اقصیٰ کا مطلب ہے طویل تر۔ مراد یہ ہے کہ اسلام کے تین مقدس مقامات میں سے یہ مقام باقی دو کی نسبت بعید تر ہے۔ کیونکہ یہ مکہ و مدینہ سے کافی فاصلے پر واقع ہے۔ اس مقام کا نام ” مسجد اقصیٰ“ نزول قرآن کے بعد ہی مشہور ہوا ہے۔ قرآن مجید کے نام سے پہلے اس کو مقدس یا بیت المقدس کہا جاتا تھا۔ بیت المقدس کا یہ علاقہ اس زمانہ میں ایلیاء کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ (عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ (رض) قَالَ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) اَیُّ مَسْجِدٍ وُّضِعَ فِیْ الْاَرْضِ اَوَّلَ قَالَ الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ قَالَ قُلْتُ ثُمَّ اَیٌّ قَالَ الْمَسْجِدُ الْاَقْصٰی قُلْتُ کَمْ بَیْنَھُمَا قَالَ اَرْبَعُوْنَ عَامًا ثُمَّ الْارَضُ لَکَ مَسْجِدٌ فَحَیْثُ مَا اَدْرَکَتْکَ الصَّلٰوۃُ فَصَلِّ) [ رواہ البخاری،: باب المساجد ومواضع الصلاۃ] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول محترم (ﷺ) سے عرض کیا کہ زمین میں سب سے پہلے کونسی مسجد تعمیر ہوئی؟ آپ نے فرمایا بیت اللہ۔ میں نے پھر عرض کیا اس کے بعد آپ فرماتے ہیں مسجد اقصیٰ۔ میں نے عرض کیا ان کے درمیان کتنے سال کافرق ہے؟ آپ فرماتے ہیں کہ چالیس سال۔ پھر ارشاد فرمایا کہ تمہارے لیے پوری زمین مسجد بنا دی گئی ہے جس جگہ نماز کا وقت ہو، نماز ادا کرلیا کرو۔“ مسائل: 1۔ نبی کریم (ﷺ) کو اللہ تعالیٰ نے مسجد حرام سے لیکر مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی۔ 2۔ مسجد اقصیٰ کے ارد گرد اللہ کی برکات کا نزول ہوتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ سننے والا، جاننے والا ہے۔