بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان، بے حد رحم کرنے والا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم تعارف سورۃ بنی اسرائیل : اس سورۃ کو بنی اسرائیل کے علاوہ اسراء کے نام سے بھی لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ اس کے بارہ رکوع اور 121آیات ہیں۔ یہ سورۃ مکہ معظمہ کے آخری دور میں نازل ہوئی۔ اس کی ابتداء معراج النبی (ﷺ) سے کی گئی ہے۔ معراج کے بارے میں یہ فرما کر شکوک و شبہات دور کیے گئے ہیں کہ وہ ذات کبریا اپنے بندے محمد (ﷺ) کو رات کے نہایت مختصر حصہ میں آسمانوں پر لے گئی۔ جو ہر کمزوری سے پاک اور ہر نقص سے مبرا ہے۔ سب کچھ سننے اور دیکھنے والی ہے۔ اسی ذات نے اپنے رسول (ﷺ) کو مسجد حرام سے لے کر مسجد اقصیٰ کی سیر کروائی تاکہ اسے اپنی قدرت کے نشانات دکھلائے۔ یہاں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک معراج کا تذکرہ فرمایا۔ سورۃ نجم میں سدرۃ المنتہیٰ تک کا بیان ہے۔ زیادہ تفصیلات احادیث کی کتب میں پائی جاتی ہیں۔ مسجد اقصیٰ کے ذکر کے فوراً بعد بنی اسرائیل کو متنبہ کیا گیا ہے کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب عنایت فرمائی۔ جس کا پہلا حکم یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو کارساز نہ سمجھا جائے۔ بنی اسرائیل کو یہ بھی انتباہ کردیا گیا تھا کہ تم دو مرتبہ ملک میں بڑا فساد برپا کرو گے اور دونوں دفعہ تم پر ایسا دشمن مسلط کیا جائے گا جو مار مار کر نہ صرف تمھارے چہرے بگاڑدے گا بلکہ دونوں مرتبہ مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی بھی کریں گے۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا ہے کہ قرآن مجید لوگوں کی ہدایت کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ جو لوگ اس پر حقیقی طور ایمان لائیں گے اور اپنی ہمت کے مطابق عمل کریں گے ان کو اجر عظیم اور ہر قسم کی کامیابی کی خوشخبری دی جاتی ہے۔ لیکن انسان اپنی جلدبازی کی وجہ سے دائمی خیر کو چھوڑ کر دنیا کی خاطر اپنے نقصان کے درپے ہوجاتا ہے۔ اسے یاد رکھنا چاہیے کہ اس کی تمام حرکات و سکنات کو ضبط تحریر میں لایا جا رہا ہے جو ایک کتاب کی شکل میں قیامت کے دن اس کے سامنے پیش کرتے ہوئے حکم ہوگا اسے پڑھ! تیرے حساب کے لیے یہی کافی ہے۔ انسان کو یہ بات بھی باور کروائی گئی ہے کہ قیامت کے دن کوئی کسی کے اعمال کا ذمہ دار نہیں ہوگا اور نہ ہی کوئی دوسرے کا بوجھ اٹھائے گا۔ پھر مسلمان معاشرے کو اعلیٰ اقدار اور مربوط رکھنے کے لیے والدین اور معاشرے کے کمزور طبقات کے حقوق کے تحفظ کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کے بعد اخلاقی، معاشی اور ہر قسم کے استحاصل سے منع کرنے کے ساتھ انسان کو سمجھایا گیا ہے کہ تیرے اخلاق اور چال ڈھال میں تواضع اور انکساری کی جھلک غالب رہنی چاہیے۔ جس وجہ سے انسان سے اخلاقی اور دیگر کمزوریاں سرزد ہوتی ہیں اس کا بنیادی سبب بتلاتے ہوئے آگاہ کیا گیا ہے کہ یہ شیطان کی شیطنت کا نتیجہ ہوتا ہے کہ انسان اپنی حیثیت بھول کر فخر و غرور اختیار کرتا ہے۔ آدم (علیہ السلام) کے ساتھ شیطان کی دشمنی کا ذکر کیا ہے کہ شیطان تمھارا ازلی اور ابدی دشمن ہے جس نے نہ صرف فخر و غرور کی وجہ سے آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا بلکہ اس نے بارگاہ اقدس میں یہ بھی گستاخی کی کہ مجھے آدم کی وجہ سے ذلیل ہونا پڑا ہے۔ لہٰذا میں آدم اور اس کی اولاد کو گمراہ کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھوں گا۔ جس کا یہ جواب دیا گیا کہ اے راندۂ درگاہ ! تو اپنے چیلے چانٹوں کو جس طرح چاہے استعمال کر۔ لیکن میرے بندوں پر تیرا تسلط مستقل طور پر قائم نہیں ہو پائے گا، اس کے ساتھ ہی شیطان کے تسلط سے بچنے کا طریقہ بتلاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ دن رات میں نماز کی پابندی کرتے ہوئے بالخصوص صبح کے وقت قرآن مجید کی تلاوت اہتمام کرو۔ کیونکہ صبح کے وقت قرآن مجید کی تلاوت کرنے پر مخصوص ملائکہ کا نزول ہوتا ہے۔ اس سورۃ کا اختتام کرنے سے پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے انھیں نو بڑی بڑی نشانیاں عطا کی تھیں۔ جس کے نتیجہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کا میاب ہوئے اور ان کا دشمن اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ غرق ہوا۔ سورۃ کا اختتام اس بات پر کیا گیا کہ اے پیغمبر (ﷺ) ! دوٹوک انداز میں بنی اسرائیل کو فرما دیجیے کہ ایمان لاؤ یا نہ لاؤ جنھیں اللہ تعالیٰ نے حقیقی علم اور سمجھ عنایت فرمائی ہے وہ تو اپنے رب کے وعدے پر یقین رکھتے ہیں اور روتے ہوئے اس کے حضور سربسجود ہوتے ہیں۔ ان کا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نہ کوئی اولاد ہے نہ اس کی بادشاہی میں کوئی شریک ہے اور اس کی ذات کو کسی اعتبار سے کمزوری لاحق نہیں ہوتی۔ اس کو کسی کی مدد درکار نہیں اس کو بڑا جانتے ہوئے اس کی بڑائی بیان کرتے رہیں۔ (عَنْ أَبِیْ لُبَابَۃَ، سَمِعْتُ عَائِشَۃَ تَقُوْلُ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) یَصُوْمُ حَتّٰی نَقُوْلَ مَا یُرِیْدُ أَنْ یُّفْطِرَ، وَیُفْطِرُ حَتّٰی نَقُوْلَ مَا یُرِیْدُ أَنْ یَّصُوْمَ، وَکَانَ یَقْرَأُ کُلْ لَّیْلَۃِ بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ، وَالزُّمُرَ ) [ رواہ ابن خزیمۃ فی صحیحہ] ” حضرت ابو لبابہ کہتے ہیں میں نے سیدہ عائشہ (رض) سے سنا انھوں نے فرمایا۔ آپ (ﷺ) مسلسل روزے رکھتے تھے اور ہم کہتے کہ آپ روزے چھوڑیں گے نہیں۔ آپ روزے رکھنا چھوڑدیتے تو ہم کہتے آپ روزہ نہیں رکھیں گے اور آپ (ﷺ) ہر رات سورۃ بنی اسرائیل اور سورۃ زمر کی تلاوت کرتے تھے۔“