وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِ ۖ وَلَئِن صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصَّابِرِينَ
اور (مسلمانو) گر تم سزا دو (٧٨) تو اتنا ہی دو جتنی سزا تمہیں دی گئی تھی، اور اگر تم صبر کرو گے تو (جان لو کہ) ایسا کرنا صبر کرنے والوں کے لیے بہت اچھی بات ہے۔
فہم القرآن : (آیت 126 سے 128) ربط کلام : مبلغ کو ہر حال میں حکمت اور حوصلہ سے کام لینا چاہیے اگر وہ انتہائی ظلم پر صبر و حوصلہ نہیں کرسکتا تو اسے ظلم سے بڑھ کر بدلہ لینے کی اجازت نہیں۔ مفسرین کا خیال ہے سورۃ النحل کی آخری تین آیات مدنی دور میں نازل ہوئیں جبکہ باقی پوری کی پوری سورۃ مکی دور میں نازل ہوئی تھی۔ آخری آیات کا شان نزول بیان کرتے ہوئے حضرت ابی بن کعب (رض) فرماتے ہیں کہ احد کے موقع پر انصار کے چونسٹھ اور مہاجرین کے چھ آدمی شہید ہوئے تھے۔ ان میں سید الشّہداء حضرت حمزہ (رض) بھی شہید ہوئے تھے۔ جن کے جسد اطہر کی بے حرمتی کرتے ہوئے کفار نے ان کے کان، ہونٹ، ناک کاٹنے کے ساتھ آنکھیں نکال دیں جس پر مسلمانوں نے ردّ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا جب ہمیں کفار پر غلبہ ہوا تو ہم بھی ان کی لاشوں کا مثلہ کریں گے۔ اس پر مسلمانوں کو اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ اگر تم بدلہ لینا چاہو تو پھر اتنا ہی بدلہ لے سکتے ہو جتنا تم پر ظلم کیا گیا ہے۔ البتہ صبر کرو گے تو صبر کرنے والوں کے لیے یہ نہایت ہی بہتر بات ہے۔ اس آیت سے بعض لوگوں نے یہ استدلال کیا ہے کہ اگر کسی مبلغ پر ظلم ہو تو وہ ظلم کا بدلہ لے سکتا ہے لیکن تبلیغ کے میدان میں اگر مبلغ صبر سے کام لے تو یہ بات نہایت ہی مفید ثابت ہوتی ہے۔ جس کی تاریخ اسلام میں ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سرورِدوعالم (ﷺ) کو پہاڑ سے بڑھ کر استقامت، سمندر سے زیادہ کشادہ دلی اور زمین سے بڑھ کر وسعت ظرفی اور صبر و ہمت کی توفیق عنایت فرمائی تھی۔ لیکن ایک انسان ہونے کے ناطے کبھی کبھار آپ کا دل بھرجاتا اور یہ بات سوچنے پر مجبور ہوجاتے کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ میں ان کی دنیا کی بھلائی اور آخرت کی بہتری کے لیے ہر چیز قربان کیے ہوئے ہوں۔ مگر لوگ میری خیر خواہی کا جواب ظلم اور بدکلامی کے ساتھ دے رہے ہیں۔ اس پر آپ کا دل پریشان ہوتا اور آپ کا سینہ پسیج جاتا تھا، جس پر آپ کو تسلی دی گئی کہ اے رسول (ﷺ) ! آپ کو ان لوگوں کے مکر و فریب، زیادتی اور بدکلامی پر زیادہ پریشان اور غمزدہ نہیں ہونا چاہیے۔ یقین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو ہر حال میں اپنے رب سے ڈرتے ہوئے اچھے اعمال اور دوسروں کے ساتھ احسان کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ طائف میں آنحضرت (ﷺ) وعظ اور تبلیغ کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ وہاں کے باشندوں نے حضور (ﷺ) پر کیچڑ پھینکا۔ آوازے لگائے، اتنے پتھر مارے کہ حضور لہو سے تر بہ تر اور بے ہوش ہوگئے۔ پھر بھی یہی فرمایا کہ میں ان لوگوں کی ہلاکت نہیں چاہتا۔ کیوں کہ اگر یہ ایمان نہیں لاتے تو امید ہے کہ ان کی اولاد مسلمان ہوجائے گی۔ (رحمۃ اللعالمین) مسائل: 1۔ صبر اللہ کی توفیق سے حاصل ہوتا ہے۔ 2۔ آپ (ﷺ) کو کفار پر غم نہ کرنے کی تلقین کی گئی۔ 3۔ کسی کی چالوں سے تنگ دل نہیں ہونا چاہیے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ متقین کے ساتھ ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ صبر اور تقویٰ اختیار کرنے والوں کے ساتھ ہے : 1۔ یقیناً اللہ متقین کے ساتھ ہے۔ (النحل :128) 2۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ:153) 3۔ اللہ سے ڈر جاؤ اور جان لو اللہ متقین کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ :194) 4۔ اگر لوگ ایمان لائیں اور تقوی اختیار کریں تو اللہ کے ہاں ان کے لیے بہترین اجر ہے۔ (البقرۃ:103) 5۔ تقوی اختیار کرنے والوں اور نیکی کرنے والوں کو اللہ پسند فرماتا ہے۔ (المائدۃ:93) 6۔ اللہ تقویٰ اختیار کرنے والوں کو نجات عطا فرماتا ہے۔ (الزمر :61)