وَلَا تَتَّخِذُوا أَيْمَانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ فَتَزِلَّ قَدَمٌ بَعْدَ ثُبُوتِهَا وَتَذُوقُوا السُّوءَ بِمَا صَدَدتُّمْ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۖ وَلَكُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
اور تم لوگ اپنی قسموں (٦٠) کو آپس میں دھوکہ دہی کا ذریعہ نہ بناؤ، کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی کا قدم اسلام پر جمنے کے بعد (تمہاری اس برتاؤ کی وجہ سے) پھسل جائے، اور اللہ کی راہ سے روکنے کی وجہ سے تمہیں سزا بھگتنی پڑے، اور (آخرت میں) تمہیں بڑا عذاب دیا جائے۔
فہم القرآن : (آیت 94 سے 97) ربط کلام : دنیا کی خاطر اللہ کے نام کو بدنام اور اپنا ایمان برباد نہ کرو دنیا تو ختم ہونے والی ہے، اور جو اللہ تعالیٰ کے ہاں تمھارا صلہ ہے وہ ہمیشہ رہنے والا ہے۔ انسان دنیوی مفاد کی خاطر جھوٹی قسم اس لیے کھاتا ہے کہ وہ نقصان سے بچ جائے یا اسے فائدہ پہنچے۔ اس برائی سے منع کرتے ہوئے سمجھایا ہے کہ جس جھوٹی انا اور دنیوی مفاد کی خاطر اپنے رب کے عظیم نام کو استعمال کرتے اور عملاً دین کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہو۔ اس پر غور کرو کہ یہ دنیا تو عارضی اور ختم ہوجانے والی ہے۔ اگر تم جھوٹی انا اور عارضی مفاد کے مقابلہ میں اخلاقی قدروں اور دین کے اصولوں پر قائم رہو تو اللہ کے ہاں اس کا نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔ استقامت اور دنیا کا معمولی مفاد چھوڑنے کے بدلے اللہ تعالیٰ تمھیں ایسی حیات طیبہ اور اجر عظیم عطا فرمائے گا۔ جس کا تم دنیا کی زندگی میں تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اس میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق اور تخصیص نہیں ہے۔ دنیا میں حقوق و فرائض کے حوالے سے عورت اور مرد میں کچھ فرق ہے لیکن اجر و ثواب کے حوالے سے کوئی فرق نہیں۔ جہاں تک حیات طیبہ کا تعلق ہے یہ آخرت میں ہی نہیں دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے۔ جو اپنے رب کے حکم اور اس کی رضا کی خاطر اخلاقی قدروں اور دین کے اصولوں کا خیال رکھے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ ایسے مرد اور عورت کو اپنی نعمتیں عطا کرنے کے ساتھ اسے معاشرے میں وہ احترام و مقام عطا فرماتا ہے جس کی لوگ مثال پیش کرتے ہیں۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی اَعْدَدْتُّ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالَاعَیْنٌ رَاأتْ وَلَآ اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَاخَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ وَّاقْرَءُ وْٓا اِنْ شِئْتُمْ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَھُمْ مِنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ) [ رواہ البخاری : باب ما جاء فی صفۃ الجنۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں‘ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی نعمتیں تیار کی ہیں‘ جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ ہی ان کے متعلق کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال آیا اگر تمہیں پسند ہو تو اس آیت کی تلاوت کرو ” کوئی نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا چیز چھپا کے رکھی گئی ہے۔“ ﴿قُلْ بِفَضْلِ اللَّہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذَلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ہُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُونَ ﴾[ یونس :58] ” آپ فرما دیں یہ اللہ کے فضل اور اس کی مہربانی سے نازل ہوئی ہے لہٰذا انہیں اس پر خوش ہونا چاہیے یہ اس سے بہتر ہے جو وہ جمع کررہے ہیں۔“ مسلمان کی دعا : ﴿وَمِنْہُمْ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَاب النَّارِ﴾[ البقرہ :201] ” اور کچھ ایسے ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے رب ! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی سے نواز اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا لے۔“ (عَنْ بُسْرِ بْنِ أَرْطَاۃَ الْقُرَشِیِّ (رض) یَقُولُ سَمِعْتُ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) یَدْعُواللَّہُمَّ أَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِی الأُمُورِ کُلِّہَا وَأَجِرْنَا مِنْ خِزْیِ الدُّنْیَا وَعَذَاب الآخِرَۃِ )[ رواہ احمد] ” حضرت بسر بن ارطاۃ قرشی (رض) کہتے ہیں میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا اے اللہ ! ہمارے تمام معاملات کا انجام اچھا فرما اور ہمیں دنیا اور آخرت کی رسوائی سے محفوظ فرما۔“ مسائل: 1۔ قسموں کو مفاد اور فساد کا ذریعہ نہیں بنا نا چاہیے۔ 2۔ اللہ کی راہ سے روکنے والوں کے لیے عذاب عظیم ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے عہد کو تھوڑے فائدے کے بدلے نہ بیچیں۔ 4۔ انسان کے پاس جو کچھ ہے وہ ختم ہوجائے گا اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہے گا۔ 5۔ صبر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کا بہتر صلہ عطا فرمائے گا۔ 6۔ اچھے اعمال کرنے والوں کودنیا میں بھی پاکیزہ زندگی سے نوازا جائے گا۔ 7۔ اچھے اعمال کرنے والوں کو قیامت کے دن ان کے اعمال کی بہترین جزا ملے گی۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ بہترین اجر دینے والا ہے : 1۔ ہم ان کو ان کے اعمال سے بہتر جزا دیں گے۔ (النحل :97) 2۔ اللہ ان کو ان کے اعمال سے بہتر صلہ عطا فرمائے۔ ( الزمر :35) 3۔ ہم ان کے اعمال سے بہتر جزا دیں گے۔ (العنکبوت :7) 4۔ اللہ ان کو ان کے اعمال کا بہتر صلہ اور اپنے فضل سے مزید عنایت فرمائے گا۔ (النور :38)