وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُم مِّمَّا خَلَقَ ظِلَالًا وَجَعَلَ لَكُم مِّنَ الْجِبَالِ أَكْنَانًا وَجَعَلَ لَكُمْ سَرَابِيلَ تَقِيكُمُ الْحَرَّ وَسَرَابِيلَ تَقِيكُم بَأْسَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ يُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْلِمُونَ
اور اللہ نے تمہارے لیے اپنی بعض مخلوقات کے سائے بنائے، اور پہاڑوں میں تمہارے لیے غار بنائے، اور تمہارے لیے ایسے لباس بنائے جو تمہیں گرمی سے بچاتے ہیں اور ایسے زرہ جوشن بنائے جو تمہیں جنگ کی خطرناکیوں سے بچاتے ہیں، وہ اپنی نعمتوں کو تمہارے اوپر اسی طرح تمام کرتا ہے تاکہ تم مطیع و فرمانبردار بنو۔
فہم القرآن : (آیت 81 سے 83) ربط کلام : انسان کی مستقل قیام گاہ کے بعد اس کی عارضی پناہ گاہوں اور اس کے لباس کا تذکرہ۔ دنیا میں انسان کی مستقل قیام گاہ اس کا گھر ہوتا ہے جو انسان کے لیے سکون اور سکونت کا باعث ہونے کے ساتھ گرمی، سردی اور اس کے سازوسامان کی حفاظت کا ذریعہ ہوتا ہے۔ انسان کا گھر بے شک جھونپڑی کی صورت میں کیوں نہ ہو وہ اسے اٹھائے ہوئے ہر جگہ نقل و حرکت نہیں کرسکتا۔ اس نے اپنی روزی اور دیگر حاجات کے لیے گھر سے باہر جانا ہوتا ہے۔ اس لیے ضروری تھا کہ اس کے لیے عارضی طور پر ایسی قیام گاہیں ہوں جنہیں وہ گرمی، سردی اور سفری مشکلات کے وقت کچھ وقت کے لیے قیام کرسکے اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے درختوں اور پہاڑوں کے سائے بنائے تاکہ تھکا ماندہ اور محنت کش انسان کچھ وقت کے لیے ان میں آرام کرسکے پہاڑوں کے دیگر فوائد کے ساتھ ایک فائدہ یہ بھی عطا فرمایا کہ انسان موسم ناہموار ہونے کی صورت میں عارضی طور پر ان میں پناہ لے سکے پھر انسان کو اللہ تعالیٰ نے یہ لیاقت عطا فرمائی کہ وہ گرمی اور جنگ کی صورت میں دشمن سے بچاؤ کے لیے اپنا لباس تیار کرے۔ حالات کے مطابق اپنی صحت اور جسم کی حفاظت کا خیال رکھ سکے۔ یہاں دو قسم کے ملبوسات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ گرمی سے بچاؤ اور لڑائی کے وقت اپنی حفاظت کے لیے لباس تیار کرنا۔ سورۃ النحل کا نزول مکہ معظمہ میں ہوا۔ مکہ اور اس کے گردونواح میں ہمیشہ سخت یا نیم گرمی کا موسم رہتا ہے۔ جنگی لباس کا ذکر اس لیے کیا کہ اس زمانے میں دست بدست لڑائی ہوتی تھی۔ دشمن کے وار سے بچنے کے لیے لوہے کا ٹوپ اور سینہ ڈھانپنے کے لیے زرہ پہنی جاتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس لباس کو اپنی نعمت قرار دیتے ہوئے فرمایا کیونکہ جنگی ٹیکنالوجی کا حصول کسی قوم اور ملک کے تحفظ کے لئے سب سے بڑی نعمت ہوا کرتا ہے۔ یہ انعامات تم پر اس لیے کیے گئے ہیں تاکہ تم اپنے رب کے تابع فرمان رہو۔ اللہ تعالیٰ کے انعامات سے مستفیض ہونے کے باوجود لوگ حق قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اے نبی (ﷺ) ! آپ پر صرف یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آپ واشگاف الفاظ اور انداز میں لوگوں تک حق پہنچا دیں جہاں تک لوگوں کی اکثریت کا حال ہے وہ اپنے رب کی نعمتوں کو پہچاننے اور ان سے لطف اندوز ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی ناقدری اور اس کے ساتھ کفر کرتے ہیں۔ یہ حقیقت قرآن مجید نے کئی بار واضح کی ہے کہ نبی معظم (ﷺ) کا کام حق بات پہنچانا ہے منوانا نہیں۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے سائے بنائے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے پہاڑوں میں پناہ گاہیں بنائیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے ایسے پیراہن بنائے جو انہیں گرمی، سردی اور جنگ کے وقت دشمن کے وار سے محفوظ رکھتے ہیں۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر اپنی نعمتیں نازل فرمائیں تاکہ وہ فرمانبردار بن جائیں۔ 5۔ انبیاء (علیہ السلام) کا کام دین کی تبلیغ کرنا ہے۔ 6۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو پہچاننے کے باوجود لوگ اللہ کی ذات اور اس کی صفات کا انکار کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن : انبیاء کا کام تبلیغ کرنا ہے : 1۔ اگر لوگ رو گردانی کریں تو آپ کا کام حق پہنچانا ہے۔ (النحل :82) 2۔ اگر تم پھر جاؤ یقیناً ہمارے رسول کے ذمے حق بات پہنچانا ہے۔ (المائدۃ:92) 3۔ نہیں ہے رسول کے ذمہ مگر حق پہنچادینا۔ (المائدۃ:99) 4۔ اگر وہ اعراض کریں تو ہم نے آپ کو نگران بنا کر نہیں بھیجا آپ کا کام پہنچانا ہے۔ (الشوریٰ:48)