وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفَّاكُمْ ۚ وَمِنكُم مَّن يُرَدُّ إِلَىٰ أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْ لَا يَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَيْئًا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ قَدِيرٌ
اور اللہ نے تمام لوگوں کو پیدا کیا ہے (٤٣) پھر تمہاری روح کو قبض کرلیتا ہے، اور تم میں سے بعض کو گھٹیا عمر تک پہنچا دیا جاتا ہے، تاکہ بہت کچھ جاننے کے بعد ایسا ہوجائے کہ اسے کچھ بھی یاد نہ رہے، بیشک اللہ بڑا جاننے والا، بڑی قدرت والا ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : دودھ اور شہد کی بناوٹ کا ذکر کرنے کے بعد انسان کو اس کی تخلیق اور اس کی زندگی کے مختلف مراحل کا احساس دلایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کی پیدائش اور زندگی کے مختلف مراحل کی طرف توجہ دلانے سے پہلے تخلیق کے عجب کرشمے بیان کرتے ہوئے فرمایا۔ اے لوگو! ذرا غور کرو کہ اللہ تعالیٰ نے چوپائے کے پیٹ میں خون اور گوبر کے بیچ میں سے کس طرح تمہارے لیے صاف شفاف سفید اور میٹھا دودھ پیدا کیا ہے۔ پھر پھلوں کی طرف دیکھو بالخصوص کھجور اور انگور سے کتنا میٹھا اور عمدہ مشروب تمہارے لیے تیار کیا۔ اگر تھوڑی سی عقل استعمال کرو تو یقیناً اپنے رب پر ایمان لانے کے لیے تیار ہوجاؤ گے۔ مزید سوچو اور دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کو کس قدر بصیرت اور رہنمائی سے نوازا ہے کہ دور دراز سے پھلوں کا رس چوس کر تمہارے لیے مختلف رنگ اور ذائقوں کا شہد تیار کرتی ہے۔ غوروفکر کرنے والوں کے لیے مکھی اور اس کے بنائے ہوئے شہد میں کس قدر سبق آموزی کے دلائل ہیں۔ اب اپنے آپ پر غور کرو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں کس طرح پیدا فرمایا۔ وہی تمہیں بچپن، جوانی اور ادھیڑ عمر میں موت دیتا ہے۔ تم میں کچھ لوگ عمر کے اس حصہ میں پہنچ جاتے ہیں جس میں ان کی جسمانی اور دماغی صلاحیتیں اس قدر کمزور ہوجاتی ہیں کہ انہیں گزرے ہوئے اوقات میں سے کچھ بھی یاد نہیں رہتا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا اور ہر چیز پر قادر ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق اور اس کے مختلف مراحل کا تذکرہ کرنے کے بعد اسے یہ احساس دلانے کی کوشش فرمائی ہے کہ اے انسانو! اپنی تخلیق کی طرف توجہ کرو۔ تاکہ تمہیں اپنی حقیقت اور حیثیت کا ادراک ہو سکے۔ بالخصوص موت و حیات کے مسئلہ پر غور کرو کہ انسان اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کسی کی مرضی سے پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی موت کسی کے اختیار میں ہے کوئی دوسرا کجا خود انسان اپنی موت و حیات پر ذرّہ برابر اختیار نہیں رکھتا۔ یہاں تک کہ زندہ ہونے کے باوجود زندگی کے اس حصہ یعنی ارزل العمر میں پہنچ جاتا ہے کہ جس میں نہ صرف اسے اپنے گزرے ہوئے ماضی کی کوئی خبر نہیں رہتی بلکہ اس کی یادداشت اور اعضا اس قدر کمزور ہوجاتے ہیں کہ دوسروں کو پہچاننا تو درکنار اسے اپنی اولاد تک کو پہچاننا مشکل ہوجاتا ہے یہاں تک کہ اسے پاکی، پلیدی کی خبر نہیں ہوتی۔ ارذل العمر کے عوارض بیان کرنے کے بعد انسان کو احساس دلایا ہے کہ تو جیتے جی سب کچھ بھول گیا ہے۔ مگر تیرا رب تیری زندگی کے ایک ایک لمحے سے واقف ہے۔ لہٰذا تجھے صحت اور خوشحالی میں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ جب چاہے اور جس طرح چاہے تیری گرفت کرنے پر قادر ہے۔ (عَنْ سَعْدٍ (رض) اَنَّہٗ کَانَ یُعَلِّمُ بَنِیْہِ ھٓؤُلَآءِ الْکَلِمٰتِ وَیَقُوْلُ اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) کَانَ یَتَعَوَّذُ بِھِنَّ دُبُرَ الصَّلٰوۃِ اَللّٰھُمَّ انیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنَ الْبُخْلِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ اَرْذَلِ الْعُمُرِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الدُّنیَا وَعَذَابِ الْقَبْرِ) [ رواہ البخاری : باب یتعوذ من الجبن] ” حضرت سعد (رض) اپنے بیٹوں کو یہ کلمات یاد کروایا کرتے تھے۔ سعد کہتے ہیں۔ اللہ کے رسول نماز کے بعدپناہ مانگا کرتے تھے۔” الٰہی میں بزدلی سے تیری پناہ چاہتا ہوں، الٰہی میں کنجوسی سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں، الٰہی میں نہایت بے بس زندگی سے پناہ مانگتا ہوں الٰہی میں دنیا کے شر اور قبر کے عذاب سے تیری پناہ کا طلبگارہوں۔“ مسائل: 1۔ موت و حیات کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا، قدرت والا ہے۔ تفسیر بالقرآن : انسانی تخلیق کے مختلف مراحل : 1۔ انسان مٹی سے پیدا ہوا۔ (آل عمران :59) 2۔ حوا آدم سے پیدا ہوئی۔ (النساء :1) 3۔ اللہ نے انسانوں میں سے ہی ان کی بیویاں بنائیں اور ان سے بچے پیدا فرمائے۔ (النحل :72) 4۔ اللہ نے انسان کو کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا فرمایا۔ (الحجر :27) 5۔ انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا گیا۔ (الدھر :2) 6۔ تخلیق انسانی کے مختلف مراحل۔ (المؤمنون : 12۔ 13۔14)