وَأَوْحَىٰ رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِي مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ
اور آپ کے رب نے شہد (٤٢) کی مکھی کو حکم دیا کہ تو پہاڑوں اور درختوں پر اور لوگوں کے بنائے ہوئے چھپروں پر اپنا گھر بنا۔
فہم القرآن : (آیت 68 سے 69) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ مکھی کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کی رزاقی اور خلاقی کے دلائل۔ مکھیاں، کیڑے، مکوڑے دیوانہ وار منڈلاتے پھولوں کا طواف کرنے کے ساتھ ساتھ ”Polination“ کا وہ عمل کرتے ہیں جو سب انسان مل کر بھی نہیں کرسکتے۔ ارشاد ربانی ہے : ” تیرے رب نے شہد کی مکھی کو پیغام بھیجا کہ پہاڑوں، درختوں اور بیلوں میں اپنا گھر بنا۔ تمام پھلوں سے رس حاصل کر اور اپنے رب کے دیے ہوئے دستور عمل کو باقاعدگی سے نبھا اور دیکھو تو سہی اس (شہد کی) مکھی کے پیٹ سے رطوبت نکلتی ہے۔ جس کے رنگ طرح طرح کے ہوتے ہیں اور جس میں امراض کی شفا ہے۔ مکھی کے ان اعمال میں ان لوگوں کے لیے اسباق موجود ہیں جو صحیفۂ فطرت میں غور کرتے ہیں۔“ (النحل : 68۔69) مکھیوں کی بارہ ہزار لگ بھگ اقسام ہیں۔ جو ماہرین کے مطابق ”Apridea“ خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ شہد کی مکھیاں اپنے رب کی وحی (پیغام) کے مطابق چلتی ہیں۔ ان کو اپنے رب کے بتائے ہوئے دستور عمل کا علم ہے شہد کی مکھیاں گندگی اور نجاست کے نزدیک تک نہیں جاتیں۔ یہ پھولوں اور پھلوں سے رس ”Nectar“ حاصل کرتی ہیں جسے طرح طرح کے عمل کے بعد خالص شہد میں تبدیل کرتی ہیں۔ جرمن سائنسدانوں نے تحقیق کے بعد بتایا ہے کہ ان مکھیوں سے وہی مادہ نکلتا ہے جسے ”Royal Jelly“ کہتے ہیں۔ شہد کی مکھیاں تین طرح کی ہوتی ہیں جن میں ملکہ، کارکن، شہد کی تلاش میں پھولوں، پھلوں تک جانے والیاں اور مادہ مکھیاں یہ چھتوں میں محصور ہوتی ہیں۔ ایک چھتے میں بیس ہزار سے بھی زیادہ شہد کی مکھیاں ہوسکتی ہیں۔ جبکہ ملکہ صرف ایک ہوتی ہے۔ ملکہ ہر روز تقریباً ایک ہزار انڈے دیتی ہے۔ عام مکھی کی عمر تقریباً 45دن کے لگ بھگ ہوتی ہے جبکہ ملائکہ کی عمر ایک سال کے قریب ہوتی ہے۔ شہد کی مکھیاں ملکہ کے ساتھ کنیزوں کی طرح رہتی ہیں۔ آیا مکھیاں ملکہ کے دیے ہوئے انڈوں والے خانوں کو ”Royal Jelly“ اور زرِ گل ”Pollen Grains“ سے بھر کر موم سے بند کردیتی ہیں اور پھر اس بند کمرے میں انڈے سے بالغ مکھی تک کے مراحل طے ہوتے ہیں۔ ملکہ مکھی کی غذا عام مکھیوں کے مقابلے میں بہت اچھی ہوتی ہے۔ اسے ”Royal Jelly“ ہمیشہ ملتی رہتی ہے۔ شہد کی مکھیاں عام طور پر قطرہ قطرہ کرکے سال میں پانچ سو کلو گرام رس ”Nectar“ حاصل کرتی ہے۔ چھتے میں شش کونے ”Hexagonal“ خانے اس ترتیب اور تناسب سے بنتے ہیں کہ عقل مکھیوں کی ”designing“ اور انجینئرنگ پر دنگ رہ جاتی ہے۔ مکھیاں موم بناتی ہیں جس سے چھتے کی تعمیر ہوتی ہے۔ کچھ مکھیاں چھتے کی صفائی اور ”Keeping House“ پر مامورہوتی ہیں۔ کارکن مکھیاں محنت مزدوری اور پھلوں، پھولوں سے رس اور زرِ گل لاتی ہیں جبکہ گھریلو مکھیاں خاتون خانہ کی طرح امور خانہ داری سنبھالتی ہیں۔ مکھیاں 50 سے لے کر 120 ڈگری فارن ہیٹ درجہ حرارت تک بآسانی اپنا کام انجام دیتی ہیں۔ چھتے میں درجہ حرارت 92 ڈگری فارن ہیٹ تک رکھتی ہیں۔ اگر ہنگامی طور پر موم کی زیادہ ضرورت ہو تو کچھ مکھیاں خود کو اذیّت میں ڈال کر الٹی لٹک جاتی ہیں۔ یوں موم سے تھیلیاں بھر کر نذر آشیاں کردیتی ہیں۔ یہ ایثار و قربانی کی عمدہ مثال ہے۔ ناکارہ اور کاہل مکھیوں کو نہ صرف چھتے سے نکال باہر کرتی ہیں بلکہ جان سے ختم کردیتی ہیں۔ مکھیوں کے چار پر اور دو آنکھیں ہوتی ہیں جو ساڑھے تین ہزار ننھی ننھی آنکھوں کا مجموعہ ہوتی ہیں۔ آنکھوں کے علاوہ مکھیوں کو دو نہایت عمدہ اینٹینے ملے ہوتے ہیں۔ جو خوشبو کو خوب پہچانتی ہیں۔ مکھی کی پچھلی دونوں ٹانگوں پر باریک باریک بال ہوتے ہیں جو زرِ گل جمع کرنے میں کام آتے ہیں۔ اللہ کی قدرت دیکھیے کہ شہد کی مکھیاں انسانی آنکھ سے بڑھ کر ”Ultra Voilet“ شعاعوں کو بھی اولاد نرینہ کی طرح پہچانتی ہیں سائنسدان مکھیوں کی اڑان، ان کے طریقہ کار، چھتے تک تیز رفتار سے سفر اور اپنی منزلوں کو پہچاننے جیسے امور پر انگشت بدنداں ہیں۔ کارکن مکھی کو ڈنگ کی قوت بھی ملی ہوتی ہے۔ مگر مکھی اپنا ڈنگ مارنے کے تھوڑی دیر بعد خود بھی مر جاتی ہے۔ شہد کی مکھیوں کے پر ملائم اور ریشم کی طرح ہوتے ہیں یہی وجہ ہے یہ خراب موسم اور بادوباران میں بھی اپنی ”Flight“ جاری رکھ سکتی ہیں۔ پروں کے نیچے نالیوں میں ہوا موجود ہوتی ہے۔ یوں مکھیوں کی ”Aerodynamics“ اور اڑنے کی کارکردگی بہت اچھی رہتی ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال 50,000,000 کلو گرام شہد پیدا ہوتا ہے۔ شہد کی مختلف اقسام ہیں۔ اسی طرح ان کے خواص بھی بے حد ہیں۔ شہد کی مکھیاں بذات خود علاج معالجے میں استعمال کی جاتی ہیں۔ قرآن میں جنت کے حوالے سے شہد کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ شہد کی مکھیوں کے کام کی تقسیم : 1۔ مکھیوں کو کھانا کھلانے کا کام۔ 2۔ لاروے کی صفائی۔ 3۔ چھتے میں نئے خانوں کی تعمیر۔ 4۔ ملکہ کی خدمت۔ 5۔ انڈوں کو سنبھالنا اور ان کی دیکھ بھال۔ 6۔ چھتے میں ہوا کی آمد 7۔ پھولوں سے زرگل اور رس کا اکٹھا کرنا۔ 8۔ خوراک کے نئے خزانوں کا پتا لگانا۔ شہد کی مکھیوں کی اہم خصوصیات : 1۔ نگران کا مقصد ”Housekeeping“ اور بیماری سے بچاؤ کی تدبیر کرنا ہے یہ چھتے میں صرف دو فیصد ہوتی ہیں۔ بھلا ان کی انفرادی قوت کی یوں تقسیم کون کرسکتا ہے ؟ 2۔ مردہ مکھیوں کو ایک گھنٹے کے اندر ہی چھتے سے باہر پھینک دیا جاتا ہے اور اسے تقریباً 400 فٹ دور پھینکتے ہیں۔ 3۔ ایک چھتے میں زیادہ سے زیادہ پچاس ہزار مکھیاں ہوتی ہیں۔ 4۔ چھتے میں تمام مکھیاں مادہ ہوتی ہیں اور ملکہ کی اولاد ہیں۔ جب کہ صرف چند نر مکھیاں جنہیں نکھٹو کہتے ہیں ہوتی ہیں۔ انہیں بھی مادہ مکھیاں مار دیتی ہیں نر مکھیاں کسی کو کاٹ نہیں سکتیں کیونکہ ان میں ڈنگ نہیں ہوتا۔ 5۔ ایک مربع فٹ چھتہ بنانے کے لیے مکھیوں کو تین اونس موم کی ضرورت ہوتی ہے۔ 6۔ کارکن مکھی کی عمر ایک سے دو ماہ ہوتی ہے۔ گیلن کی مقدار اور مکھی : 7۔ پھولوں کے رس کا ایک گیلن مکھی میں اتنی توانائی پیدا کرتا ہے کہ وہ گیارہ کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چالیس لاکھ میل کا سفر طے کرسکتی ہے۔ 8۔ چھتے کا درجہ حرارت 93 سے 95 ڈگری فارن ہیٹ رہتا ہے۔ اگر یہ 98 ڈگری فارن ہیٹ ہوجائے تو مکھیاں مر جاتی ہیں۔ مکھیاں اپنے پروں کی حرکت سے یہ درجہ حرارت قائم رکھتی ہیں ایگزاسٹ فین اسی اصول پر کام کرتا ہے۔ 9۔ خوراک کی کمی کی صورت میں مل بانٹ کر کھاتے ہیں اس لیے زندہ رہتیں ہیں۔ 10۔ ملکہ مکھی کو یعسوب بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی عمر تقریباً دو سال تک ہوتی ہے اس کے مرنے کے بعد اس کی بیٹی ملکہ بن جاتی ہے۔ ملکہ مکھی دن بھر میں 1500 انڈے دیتی ہے اور ساری عمر میں تقریباً دس لاکھ سے زائد انڈے دیتی ہے۔ 11۔ مکھیاں آتشی شعاؤں ”Ultra Voilet Rays“ بھی دیکھ سکتی ہیں۔ چنانچہ ابر آلود موسم میں بھی ان کو طلوع آفتاب کا علم ہوجاتا ہے اور اپنا کام شروع کردیتی ہیں۔ 12۔ یہ زمین کے مقناطیسی نظام کے تحت سفر کرتی ہیں۔ لہٰذا اندھیرے میں بھی یہ راستہ نہیں بھولتیں۔ 13۔ چھتے میں ہر خانہ مسدس (چھ دیوار والا) ہوتا ہے۔ اس لیے جگہ بے کار نہیں جاتی۔ 14۔ شہد کی کمی ہو تو اس میں پانی ملاتی ہیں۔ 15۔ ہر شہد کی مکھی واپس اپنے ہی چھتے میں آتی ہے۔ مسائل: 1۔ شہید کی مکھیاں پھلوں سے رس چوس کر شہد بناتی ہیں۔ 2۔ شہد مختلف اقسام کا ہوتا ہے۔ 3۔ شہد میں شفا ہے۔