وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً ۖ نُّسْقِيكُم مِّمَّا فِي بُطُونِهِ مِن بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَائِغًا لِّلشَّارِبِينَ
اور بیشک تمہارے لیے چوپایوں (٤٠) میں بھی عبرت ہے، اس کے پیٹ میں جو گوبر اور خون ہے ان کے درمیان سے خالص دودھ نکال کر ہم تمہیں پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لیے بڑا ذائقہ درا ہوتا ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : حیوانات اور نباتات کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کے خالق، رازق ہونے کے ناقابل تردید دلائل۔ دوران خون (بلڈ سرکولیشن) اور دودھ : قرآن پاک کا نزول، دوران خون کی وضاحت کرنے والے اولین مسلمان سائنس دان ابن نفیس سے 600سال پہلے اور اس دریافت کو مغرب میں روشناس کروایاتھا۔ تقریباً تیرہ صدیاں پہلے یہ معلوم ہوا کہ آنتوں کے اندر ایسا کیا کچھ ہوتا ہے جو نظام ہاضمہ میں انجام پانے والے افعال کے ذریعے دیگر جسمانی اعضا کی نشوونما کی ضمانت فراہم کرتا ہے قرآن پاک کی ایک آیت مبارک، جو دودھ کے اجزاء کے ماخذ کی وضاحت کرتی ہے، اس تصور کے عین مطابق ہے۔ مذکورہ بالاتصور کے حوالے سے آیت قرآنی کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا اہم ہے کہ آنتوں میں کیمیائی تعاملات واقع ہوتے ہیں اور یہ آنتوں ہی سے ہضم کردہ غذا سے اخذ کیے ہوئے مادے ایک پیچیدہ نظام سے گزر کر دوران خون میں شامل ہوتے ہیں۔ کبھی وہ مادے جگر سے ہو کر گزرتے ہیں جس کا انحصار ان کی کیمیائی ترکیب پر ہوتا ہے۔ خون ان اجزاء (مادوں) کو تمام اعضا تک پہنچاتا ہے جن میں دودھ پیدا کرنے والے (چھاتیوں کے) غدود بھی شامل ہیں۔ سادہ الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ آنتوں میں موجود غذا کے بعض مادے آنتوں کی دیوار سے سرایت کرتے ہوئے خون کی نالیوں (Vessels) میں داخل ہوجاتے ہیں، اور پھر خون کے راستے یہ دوران خون کے ذریعے کئی اعضا تک جا پہنچتے ہیں۔ یہ فعلیاتی تصور ہماری سمجھ میں آجائے گا اگر ہم قرآن پاک کی درج ذیل آیات مبارکہ کو سمجھنے کی کوشش کریں گے : ﴿وَإِنَّ لَکُمْ فِی الْأَنْعَامِ لَعِبْرَۃً نُسْقِیْکُمْ مِمَّا فِیْ بُطُونِہٖ مِنٌ بَیْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَبَنًا خَالِصًا سَآئِغًا للشَّارِبِیْنَ﴾[ النحل :66] ” اور تمہارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق موجود ہے ان کے پیٹ سے گوبر اور خون کے درمیان ہم ایک چیز تمہیں پلاتے ہیں، یعنی خالص دودھ، جو پینے والوں کے لیے نہایت خوشگوار ہے۔“ ﴿وَإِنَّ لَکُمْ فِی الْأَنْعَامِ لَعِبْرَۃً نُسْقِیکُمْ مِمَّا فِیْ بُطُوْنِہَا وَلَکُمْ فِیْہَا مَنَافِعُ کَثِیْرَۃٌ وَمِنْہَا تَأْکُلُوْنَ﴾[ المومنون :21] ” اور حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق ہے۔ ان کے پیٹوں میں جو کچھ ہے اسی میں سے ایک چیز ( دودھ) ہم تمہیں پلاتے ہیں اور تمہارے لیے ان میں بہت فوائد ہیں۔ ان کو تم کھاتے ہو۔“ 1400سال قبل، قرآن پاک کی فراہم کردہ یہ وضاحت جو گائے میں دودھ کے پیدا ہونے کے حوالے سے ہے، حیرت انگیز طور پر جدید معلومات سے بھر پور انداز میں ہم آہنگ ہے جس نے اس حقیقت کو حال ہی میں دریافت کیا۔ (قرآن اور سائنس : ازخطبات ڈاکٹر ذاکر نائیک) مسائل: 1۔ چوپائے انسان کے لیے باعث عبرت ہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ خون اور گوبر کے درمیان سے خالص دودھ پیدا کرتا ہے۔ 3۔ پینے والوں کے لیے دودھ انتہائی مزے دار ہے۔ تفسیر بالقرآن: دودھ کی حقیقت اور چوپاؤں کے فوائد : 1۔ ہم ان کے پیٹوں سے تمہیں خالص دودھ پلاتے ہیں۔ (النحل :66) 2۔ اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہارے لیے چوپائے پیدا فرمائے تاکہ تم ان پر سواری کرسکو اور کھا سکو۔ (المومن :79) 3۔ چوپاؤں کو پیدا کیا جن کے ذریعے تم سردی سے بچتے ہو اور دیگر فوائد حاصل کرتے ہو۔ (النحل :5) 4۔ تمہارے لیے چوپاؤں کی کھالوں سے ایسے گھر بنائے جنہیں تم نقل مکانی اور قیام دونوں حالتوں میں ہلکا پاتے ہو۔ (النحل :80) 5۔ تمہارے لیے چوپاؤں میں عبرت ہے کہ ان کے پیٹوں میں سے ہم تمہیں دودھ پلاتے ہیں اور تمہارے لیے ان میں بہت سے فوائد ہیں اور انہی میں سے تم کھاتے بھی ہو۔ (المومنون :21)