وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ
اور اپنے اموال آپس میں ناحق نہ کھاؤ (268) اور نہ معاملہ حکام تک اس غرض سے پہنچاؤ تاکہ لوگوں کے مال کا ایک حصہ ناجائز طور پر، جانتے ہوئے، کھا جاؤ
فہم القرآن : ربط کلام : جب تم اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھ کر دن کے وقت روزہ میں کھانے پینے، عورتوں سے مباشرت اور اعتکاف کی حالت میں رات کے وقت بھی اپنی بیویوں سے جماع نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ کا حکم جانتے ہوئے ہمیشہ کے لیے حرام خوری اور ناجائز ذرائع سے بچ جاؤ۔ حرام کے بارے میں حکم امتناعی جاری کرنے سے پہلے آیت ١٤٨ میں ارشاد فرمایا تھا کہ ” لوگوجو کچھ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے حلال اور طیّب پیدا کیا ہے اسے کھاؤ اور شیطان کے قدم بہ قدم نہ چلو وہ تمہار اکھلا اور واضح دشمن ہے۔“ یہاں دو ٹوک انداز میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے کھانے اور ہتھیانے سے منع کیا جارہا ہے اور یہ امتناعی حکم روزے کے احکام، آداب اور اوقات کا تعین فرماتے ہوئے دیا جارہا ہے جس میں یہ فلاسفی پائی جاتی ہے کہ روزہ کا مقصد گناہوں سے بچنا اور پرہیزگاری ہے۔ جب تم اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھ کر صبح سے شام تک اپنے جائز حقوق اور حلال چیزوں سے ہاتھ اٹھالیتے ہو تو اسی مالک کا حکم جان کر تمہیں حرام مال سے ہاتھ اٹھا لینا چاہیے۔ حرام مال کے لیے باطل کا لفظ استعمال فرما کر واضح کیا جارہا ہے کہ ناجائز طریقے سے کمایا ہوا مال بے شک وہ عرف عام میں حلال کی فہرست میں شامل کیوں نہ ہو تین غلط ذرائع سے حاصل ہونے کی وجہ سے حرام ہوجاتا ہے۔ پھر جذبۂ اخوّت کو بیدار کرنے کے لیے ” آپس کے مال کی“ اصطلاح استعمال فرمائی تاکہ باہمی ہمدردی کا احساس ایک دوسرے کا مال ہڑپ اور ضبط کرنے سے لوگوں کو روک سکے۔ اس کے ساتھ ہی اس طریقے کی نفی کی گئی جس کے ذریعے مقدّمہ باز اور حرام خور دوسرے کے مال کو اپنے لیے جائز سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ایسے لوگوں کا ضمیر اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ قانونی جنگ جیتنے کے باوجود یہ مال میرے لیے جائز نہیں۔ ضمیر کی اس خلش کا یہ کہہ کر ذکر فرمایا ہے کہ تم خود بھی اس حرام کام اور حرام خوری سے واقف ہو۔ کاش! ایسا دھندہ کرنے والے مسلمان اس قسم کی مقدمہ بازی کے مضمرات اور اس سے پیدا ہونے والی نفرتوں سے آگاہ ہوجائیں۔ رسول کریم {ﷺ}نے اس برے دھندے اور اس سے حاصل شدہ مال کے بارے میں اس طرح ارشاد فرمایا ہے : (إِنَّکُمْ تَخْتَصِمُوْنَ إِلَیَّ وَلَعَلَّ بَعْضَکُمْ أَنْ یَّکُوْنَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِہٖ مِنْ بَعْضٍ فَأَقْضِیَ لَہٗ عَلٰی نَحْوِ مِمَّا أَسْمَعُ مِنْہُ فَمَنْ قَطَعْتُ لَہٗ مِنْ حَقِّ أَخِیْہِ شیئًا فَلَا یَأْخُذْ ہُ فَإِنَّمَاأَقْطَعُ لَہٗ بِہٖ قِطْعَۃً مِّنَ النَّارِ) [ رواہ مسلم : کتاب الأقضیۃ] ” تم میرے پاس فیصلے لاتے ہو شاید تم میں سے کچھ لوگ دوسروں کی نسبت اپنی دلیل پیش کرنے میں زیادہ فصیح ہوں اور میں اس کی بات سن کر اس کے حق میں فیصلہ کردوں۔ فیصلہ کرتے ہوئے میں جس شخص کو اس کے بھائی کے حق میں سے کچھ دوں تو وہ اسے نہ لے بلا شبہ میں اسے آگ کا ایک ٹکڑا دے رہا ہوں۔“ کمائی کے حرام طریقے : (عَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَ {رض}أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ {ﷺ}قَالَ مَنِ اقْتَطَعَ حَقَّ امْرِیءٍ مُّسْلِمٍ بِیَمِیْنِہٖ فَقَدْ أَوْجَبَ اللّٰہُ لَہُ النَّارَوَحَرَّمَ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ فَقَالَ لَہٗ رَجُلٌ وَإِنْ کَانَ یَسِیْرًا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَا لَ وَإِنْ کَانَ قَضِیْبًا مِّنْ أَرَاکٍ) [ رواہ مسلم : کتاب الإیمان : باب : وعید من اقتطع حق امری مسلم بیمین فاجرۃ بالنار] ” حضرت ابوامامہ {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا : جو شخص قسم کھا کر کسی مسلمان کا حق مارتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے دوزخ واجب کردیتا ہے اور جنت اس پر حرام کردیتا ہے۔“ کسی نے آپ {ﷺ}سے پوچھا اگرچہ یہ حق تلفی معمولی قسم کی ہو؟ ” فرمایا : اگرچہ وہ پیلوں کے درخت کی شاخ ہی کیوں نہ ہو۔“ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ {رض}قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ {ﷺ}لِأَصْحَابِ الْمِکْیَالِ وَالْمِیْزَانِ إِنَّکُمْ قَدْ وُلِّیْتُمْ أَمْرَیْنِ ھَلَکَتْ فِیْہِ الْأُمَمُ السَّالِفَۃُ قَبْلَکُمْ) [ رواہ الترمذی : کتاب البیوع، باب فی المکیال والمیزان] ” حضرت عبداللہ بن عباس {رض}بیان کرتیہیں رسول اللہ {ﷺ}نے ماپ تول کرنے والوں کو فرمایا : بلاشبہ تم دو ایسے کاموں کے ذمہ دار بنائے گئے ہو کہ تم سے پہلی قومیں اسی جرم کی پاداش میں ہلاک ہوئیں۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ {ﷺ}مَرَّ عَلٰی صَبُرَۃِ طَعَامٍ فَأَدْخَلَ یَدَہٗ فِیْھَا فَنَالَتْ أَصَابِعُہٗ بَلَلًا فَقَالَ مَاھٰذَا یَا صَاحِبَ الطَّعَامِ قَالَ أَصَابَتْہُ السَّمَاءُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ أَفَلَا جَعَلْتَہٗ فَوْقَ الطَّعَامِ کَیْ یَرَاہ النَّاسُ مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ مِنِّیْ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان : باب : قول النبی من غشنا فلیس منا] ” حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ {ﷺ}کا ایک غلہ کے ڈھیر پر گزر ہوا۔ آپ نے اپنا ہاتھ اس میں داخل کیا تو انگلیوں کو نمی محسوس ہوئی۔ آپ نے پوچھا : اے اناج والے ! یہ کیا ہے؟ وہ کہنے لگا : یارسول اللہ! اس پر بارش ہوئی تھی۔ آپ نے فرمایا : تو نے اس نمدار غلے کو ڈھیر کے اوپر کیوں نہ رکھا تاکہ لوگ اسے دیکھ سکتے۔ پھر فرمایا : جس نے دھوکا دیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔“ مسائل : 1۔ ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے نہیں کھانا چاہیے۔ 2۔ جھوٹی مقدّمہ بازی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ 3۔ ناجائز طریقہ سے کمایا ہوا مال حرام ہوجاتا ہے۔ 4۔ کسی کا مال ناجائز طریقے سے کھانا حرام ہے۔