سورة النحل - آیت 15

وَأَلْقَىٰ فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَن تَمِيدَ بِكُمْ وَأَنْهَارًا وَسُبُلًا لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور اس نے زمین میں پہاڑ (٩) رکھ دیئے تاکہ وہ تمہیں اٹھائے ہوئے ڈگمگاتی نہ رہے، اور نہریں اور راستے بنائے تاکہ تم (اپنی منزل تک) راہ پاسکو۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 15 سے 17) ربط کلام : سمندر کے بعد پھر زمین کا تذکرہ۔ بارہویں پارے کی ابتدا میں ذکر ہوا ہے کہ اللہ ہی کی ذات ہے جس نے زمین و آسمان کو چھ دن میں پیدا کیا ہے اس سے پہلے اس کا عرش پانی پر تھا۔ ( ھود :7) جب زمین کو پانی پر استوار کیا گیا تو یہ ہچکولے کھاتی تھی جس طرح خالی کشتی پانی پر ہچکولے کھایا کرتی ہے۔ کشتی میں مناسب مقدار میں وزن ہو تو وہ ہچکولے کھانے اور ڈانواں ڈول ہونے کے بجائے پانی کی سطح پر متوازن رفتار میں ٹھہری رہتی ہے۔ یہی کیفیت پہاڑوں سے پہلے زمین کی تھی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے زمین پر بڑے بڑے پہاڑ گاڑ دیے تاکہ ہچکولے کھانے سے رک جائے۔ پھر پہاڑوں کے درمیان دریا، نہریں اور راستے بنا دیے گئے تاکہ لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے سہولت اور راہنمائی حاصل کریں۔ ان راستوں کو پہچاننے کے لیے زمین پر پہاڑ، ٹیلے، درخت اور دیگر نشانیاں قائم کرنے کے ساتھ رات کے سفر کے لیے آسمان پر چمکتے ہوئے ستاروں کاسلسلہ پھیلا دیا گیا ہے کہ آسمان کے نیچے بلب لٹکا دیے گئے ہیں۔ جس سے صحراؤں اور بیابانوں میں راستہ تلاش کرنا آسان ہوگیا۔ پھر ستاروں کی مدد سے زمین پر راستے متعین کیے جاتے ہیں۔ بڑی بڑی نشانیاں بیان کرنے اور ان کے حوالے سے اپنی ذات اور صفات کی وحدت کا ثبوت دینے کے بعداللہ تعالیٰ ہر انسان بالخصوص کافر اور مشرک سے سوال کرتا ہے۔ جن کو اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات میں شریک کرتے ہو وہ ان چیزوں کے مقابلے میں وجود کے اعتبار سے نہایت ہی چھوٹی مخلوق ہیں۔ انہیں اور سب کو اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیا ہے۔ لہٰذا بتاؤ کہ خالق اور مخلوق دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ ظاہر ہے کہ ہرگز برابر نہیں ہو سکتے پھر تم شرک کو سمجھنے اور اس سے بچنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔ دوسرے مقام پر اس حقیقت کو یوں بیان کیا ہے کہ اے لوگو تمہارے سامنے ایک مثال بیان کی جاتی ہے اسے غور سے سنو۔ اللہ تعالیٰ کے سوا جن کو تم پکارتے ہو وہ سب جمع ہو کر ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے۔ مکھی پیدا کرنا تو درکنار اگر مکھی ان کے کھانے سے کوئی چیز اٹھا کرلے جائے تو یہ اسے واپس نہیں لے سکتے۔ مدد طلب کرنے والے اور جن سے مدد طلب کی جاتی ہے دونوں ہی کمزور ہیں۔ درحقیقت لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہیں پہچانی۔ (الحج :73) ترقی یافتہ اقوام اپنے مقابلے میں دوسروں کو اجڈ‘ جاہل اور غیر مہذب تصور کرتی ہیں۔ بالخصوص مسلمانوں کے بارے میں ان کا خیال یہ ہے کہ مسلمان غیر مہذب‘ جاھل اور بنیاد پرست لوگ ہیں۔ حالانکہ اسلام ہی وہ دین ہے جس نے ان فرسودہ خیالات اور تصورات کی نہ صرف حوصلہ شکنی بلکہ مکمل نفی کی ہے۔ ستاروں اور چاند کو مسخر کرنے کا دعوے کرنے والی اقوام ایسے جاہلانہ تصورات رکھتے ہیں کہ انہوں نے ہفتے کے ایام کو انہی بروج اور سیاروں کی طرف منسوب کر رکھا ہے۔ یہاں پہاڑوں کا سب سے بڑا یہ فائدہ ذکر فرمایا ہے کہ ان کے ذریعے زمین کو متوازن بنا دیا گیا۔ اس کا اعتراف آج کے ماہر ارضیات بھی کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پوری زمین پر پہاڑوں کا سلسلہ اس طرح قائم کیا ہے جس سے زمین میں ٹھہراؤ پیدا ہوگیا ہے۔ اس لحاظ سے پہاڑ زمین کو ہچکولے کھانے سے بچانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے زمین میں پہاڑگاڑ دیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے زمین میں دریا اور راستے بنائے تاکہ تم راہ پا سکو۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے علامتیں بنائی ہیں۔ 4۔ انسان ستاروں سے بھی راستہ تلاش کرتے ہیں۔ 5۔ پیدا کرنے والا اور نہ کرنے والا برابر نہیں ہو سکتا۔ 6۔ واضح دلائل کے باوجود لوگ نصیحت حاصل نہیں کرتے۔ تفسیر بالقرآن : خالق اور مخلوق برابر نہیں ہو سکتے : 1۔ کیا پیدا کرنے والا اور پیدا نہ کرنے والے برابر ہیں؟ (النحل :17) 2۔ کیا تم ان کو شریک بناتے ہو جنہوں نے کوئی چیز پیدا نہیں کی بلکہ وہ خود پیدا کیے گئے ہیں۔ (الاعراف :191) 3۔ اللہ کے سوا کیا وہ ان لوگوں پکارتے ہیں جنہوں نے کچھ پیدا نہیں کیا بلکہ انہیں پیدا کیا گیا ہے؟ (النحل :20) 4۔ انہوں نے ان کو معبود بنا لیا جنہوں نے کوئی چیز پیدا نہیں کی۔ (الفرقان :3) 5۔ بھلا دیکھو جو کچھ تم بوتے ہو تو کیا تم اسے اگاتے ہو یا ہم اگاتے ہیں۔ (الواقعۃ: 63۔64) 6۔ تمہیں آسمان و زمین سے کون رزق دیتا ہے کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے ؟ (النمل :64)